ہم چار بھائیوں نے مل کر ایک زمین خریدی تھی، خریدتے وقت میری آگے بیچنے کی نیت تھی،جبکہ باقی تین بھائیوں نے آگے بیچنے کی نیت سے نہیں خریدی تھی،اب سوال یہ کہ مذکورہ زمین کی زکوۃ کیسے ادا کی جائے گی؟
واضح رہے کہ جو زمین تجارت کی نیت سے خریدی جائے یعنی اس کو خریدتے وقت آگے فروخت کرنے کی نیت ہو تو سال گزرنے پر اس کی قیمت پر زکوۃ فرض ہوتی ہے،اور اگر زمین تجارت کی نیت(آگے فروخت کرنے کی نیت)سے نہیں خریدی بلکہ ذاتی مکان بنانے کی نیت سے خریدی ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی،نیز اگر زمين چند افراد كے درميان مشترك ہو تو ہرشريك كے اپنے حصہ كا اعتبار ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذكوره زمين ميں سائل كے حصہ کی قیمت نصاب (ساڑهے باون تولہ چاندی)كے بقدر یا نصاب سے تو کم ہو لیکن دوسرے اموالِ زکوۃ (سونا،چاندی ،نقدی)کو ملانے سے نصاب پورا ہوجائے،تو سال پورا ہونے پر سائل کےذمہ اپنے حصہ کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا،باقی جن تین بھائیوں نےمذکورہ زمین خریدتے وقت آگے فروخت کرنے کی نیت نہیں کی تھی تو ان پر مذکورہ زمین میں اپنے حصے کی زکوۃ ادا کرنا لازم نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات."
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:
الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا بلغنصابا ملكا تاما، وحال عليها الحول...الملك التام ان يكون ملكه ثابتا من جميع الوجوه."
(كتاب الزكوة، وجوب الزكوة وسببها وحكمها، ج:3، ص:133، ط:مكتبة زكريا)
وفیه ایضاً:
"اتفق اصحابنا ان من ملك ماسوى الدراهم والدنانير من الأموال بالشراء، ونوى التجارة حالة الشراء أنه تعمل نيته ويصير المشترى للتجارة."
(کتاب الزکوۃ، الفصل الثالث فی بیان زکوۃ عروض التجارۃ، ج:3، ص:167، ط: مکتبه زکریا)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601102272
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن