بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے لئے وقف کردہ زمین پر مسجد بنانے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے  زمین  مدرسہ کی نیت سے وقف کی ہے، اب اس وقف شدہ زمین  پر مسجد اور مدرسہ بنانا چاہتاہے،   تعمیر کا ارادہ اس طرح ہے کہ  زمین  پر مدرسہ کے لئے  دفتر اہتمام، وضوخانہ ، وغیرہ ہو ، پہلی منزل میں مسجد ہو،  دوسری منزل  میں لڑکوں کا مدرسہ اور تیسری منزل میں لڑکیوں کا مدرسہ ہو ،کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟اگر یہ درست نہیں تو صحیح طریقہ کار کی راہ نمائی فرمائیں ۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں چونکہ مذکورہ  زمین مدرسہ کی نیت سے وقف کی گئی ہے؛  لہذا اس زمین کو مدرسہ  کے علاوہ کسی اور مصرف کے لئے استعمال کرنا اوراس زمین پر مسجد شرعی قائم کرنا جائز نہیں ، البتہ  اس زمین پر   سائل کےلئے  مذکورہ ترتیب سے( زمین  پر مدرسہ کے لئے  دفتر اہتمام ، وضوخانہ ، وغیرہ  ، پہلی منزل میں    مصلی (نہ کہ شرعی مسجد)  ،  دوسری منزل  میں لڑکوں کا مدرسہ اور تیسری منزل میں لڑکیوں کا مدرسہ )   تعمیرکرنا  جائز ہے ،  یعنی مدرسہ کی نیت سے وقف شدہ زمین پر  یااس زمین کی  کسی منزل پر  نماز کےلئے اگر کوئی جگہ خاص کی جائےتو اس   کا حکم مصلی کا ہوگا،  مسجد شرعی کا  نہیں ہوگا ، اور مصلی  میں اعتکاف کرنا درست نہیں ہوتا، اور اس جگہ نماز باجماعت پڑھنے کی صورت میں  نماز باجماعت کا ثواب مل جائے گا، البتہ  مسجد شرعی میں نماز پڑھنے کا ثواب   نہیں  ملے گا۔

اگرقریب میں مسجد موجود ہوتومصلیٰ(جائے نماز)نہ بنایاجائے،بلکہ قریبی مسجد میں نمازباجماعت ادا کرنے کااہتمام کیاجائے۔

نیز اگر وسعت وگنجائش ہواورضرورت بھی ہوتو مستقل زمین مسجد کی نیت سے وقف کی جائے تاکہ مسجد شرعی کا ثواب  مل جائےاور اعتکاف کیاجاسکے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."

(کتاب الوقف، الباب الأول، ج:2، ص:350، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وقف ضيعة في صحته على الفقراء، وأخرجها من يده إلى المتولي ثم قال لوصيه عند الموت: أعط من غلتها لفلان كذا ولفلان كذا فجعله لأولئك باطل؛ لأنها صارت للفقراء أو فلا يملك إبطال حقهم إلا إذا شرط في الوقف أن يصرف غلتها إلى من شاء اهـ والمراد ببطلانه أنه لا يكون حقا لازما لفلان في غلة الوقف فلو كان فلان فقيرا لا يلزم إعطاؤه بل له أن يعطي غيره."

(کتاب الوقف، ج:4، ص:360، ط: سعید)

وفیه أیضاً :

"صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(کتاب الوقف، مطلب مراعاۃ غرض الواقفین واجب، ج:4، ص:445، ط: سعید)

وفيه ايضاً :

"‌شرط ‌الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة."

 (‌‌كتاب الوقف، مطلب في قولهم ‌شرط ‌الواقف كنص الشارع، ج:4، ص:366، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں