بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کے لیے خنزیر کا گوشت فروخت کر نے والے اسٹور میں ملازمت کاحکم


سوال

1:میں کینیڈا میں اسٹوڈنٹ ہوں میرے دوست یہاں ( کینیڈا میں )  فوڈ   ڈیلیوری کا کام کرتے ہیں جس میں سور کا گوشت  بھی شامل ہوتا ہے، کیا یہ کام  اور اسکی  کمائی جائز ہے؟۔

   2:میں خود ایک سٹور میں جاب کرتا ہوں جس میں مخصوص جگہ پر سور کے  گوشت  کے پیکٹ بنے ہوئے رکھے  ہوتے ہیں          مجھے آج تک اس بات کہ علم نہیں تھا۔ وہاں ۹۹% باقی چیزیں حلال ہیں ان میں ایسی کوئی حرام چیز شامل نہیں ہوتی۔ میری جاب اور کمائی حلال ہے؟۔

3:اِسی طرح کچھ دوست فوڈ ریسٹسورنٹ میں کام کرتے ہیں  اس میں   پیزا  بناتے ہوئے خود سور کے گوشت کو  اپنے ہاتھ سے شامل کرتے ہیں۔ کیا ان کی جاب اور کمائی حلال ہے؟۔

جواب

1:کھانا ڈیلور کرنا جائز ہے، تاہم ایک مسلمان کے لیے حرام خنزیر کے گوشت  ، اور  شراب سے بنی اشیاءوغیرہ ڈیلیور کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مسلمان کے  لیے  شریعتِ مطہرہ میں جو  چیز حرام ہے، اس حرام چیز کا خریدنا یا فروخت کرنا یا کسی کو فراہم کرنا بھی حرام ہے۔لہذا متبادل مکمل حلال روزگارکے حصول  کی کوشش کیجیے، یا جس ادارے سے آپ کا تعلق ہے اس کی انتظامیہ سے درخواست کریں کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ کے لیے حرام اشیاء کی ڈیلیوری ممکن نہیں ہے، وہ ایسے آرڈر آپ کے حوالے نہ کریں، اور جب تک مذکورہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہیے اور حرام اشیاء کی ڈیلیوری پر حاصل ہونے والی رقم بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں۔ تاہم جو پیسے حلال اشیاء کی ڈیلوری کے عوض ملے ہوں، ان کا استعمال جائز ہے۔

 2:سائل کا ایسے  اسٹور میں کام  کرنا کہ جس میں سور کے گوشت کے پیکٹ بنے ہوئے رکھے ہو ئے  ہو تے ہیں ،باقی ۹۹ فیصد حلال سامان ہوتے ہیں، تو سائل کےذمہ اگر  شراب یا خنزیر یا اس جیسی حرام چیزیں فروخت کرنا نہیں  ہوتا ،     تو وہاں کام کرنا جائز ہوگا اور اگر حرام اور ناجائز چیزوں کو فروخت کرنے میں حصہ لیا جاتا ہو تو جس قدر اس میں حصہ لیا ہے، اس کے بقدر معاوضہ وصول کرنا ناجائز ہوگا اور اس طرح حصہ لینا گناہ کا سبب ہوگا؛ لہذا ایسی جگہوں پر کام کرنے سے اجتناب بہتر ہے۔ اگر بوجہ مجبوری عارضی طور پر کام کرنا ہو تو مالک سے پہلے ہی طے کرلیا جائے  کہ شراب اور خنزیر وغیرہ ناجائز اشیاء سرو نہیں کریں گے۔

3:  جس طرح مسلمان کے  لیے خنزیر کا گوشت کھانا حلال نہیں ہے، ایسے  ہی مسلمان کا   کسی کو خنزیر کا گوشت کھلانابھی جائز نہیں ہے، لہذا مذکورہ پیزا کچن میں جب سور کا گوشت استعمال کرنا پڑتا ہے   تو ایسی جگہ ملازمت کرنا جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں فوراً کسی ایسی جگہ نوکری تلاش کرنی چاہیے  جہاں خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ ہو۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ[المائدة: 2]"

"ترجمہ:  نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کر تے رہو  گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی  اعانت مت کرو اور اللہ تعالی سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالی سخت  سزا دینے والے ہیں "( بیان القرآن )

"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ.[المائدة:3]"

ترجمہ:تم پر حرام کیے گئے  مردار اور خنزیر کا گوشت اور جو جانور کہ  غیر  اللہ کے لیےنامزد کردیا گیا ہو( بیان القرآن )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى(وتعاونوا على البر والتقوى) يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى(ولا تعاونوا على الإثم والعدوان) نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورة المائدة،الآية:3 ،ج:3، ص:296، ط:دار إحياء التراث العربي)

سنن ترمذی  میں ہے:

" عن أنس بن مالك قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌في ‌الخمر ‌عشرة: عاصرها، ومعتصرها، وشاربها، وحاملها، والمحمولة إليه، وساقيها، وبائعها، وآكل ثمنها، والمشتري لها، والمشتراة له."

( أبواب البيوع، باب النهي عن أن يتخذ الخمر،2 / 580، ط: دار الغرب الإسلامي ) 

ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے شراب کے بارے میں ان دس افراد پر لعنت فرمائی ہے: شراب نچوڑنے والا، جس کے لیے شراب نچوڑی جائے، شراب پینے والا، اور شراب کو اٹھا کر لے جانے والا، اور جس کی طرف شراب اٹھا کر لے جائی جائے، اور شراب پلانے والا، اور شراب بیچنے والا، اور اس کی قیمت وصول کر کے کھانے والا، اور اسے خریدنے والا اور جس کے لیے خریدی جائے‘‘۔

بذل المجہود میں ہے :

 "ومتفق عليه أن كل اُجرة تكون علی فعل المعصية تكون حراما."

(کتاب  ا لإجارة ، باب في كسب الحجام ، 129/11،مكتبه :دارالبشائر ) 

فتاوی شامی میں ہے

"وما كان سببا لمحظور فهو محظور."

 

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:350،ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولواستاجرمسلما لیرعی لہ الخنازیر یجب ان یکون علی الخلاف کما فی الخمرولواستاجرہ لبیع لہ میتۃ لم یجز ھکذا فی الذخیرۃ ا".

(كتاب الاجارة،الباب السادس،450/4،دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(و لايجوز بيعها) لحديث مسلم: «إن الذي حرم شربها حرم بيعها».

(قوله: في حق المسلم) أما الذمي فهي متقومة في حقه كالخنزير حتى صح بيعه لهما، ولو أتلفهما له غير الإمام أو مأموره ضمن قيمتها له كما مر في آخر الغصب.

(قوله: لا ماليتها في الأصح) لأن المال ما يميل إليه الطبع ويجري فيه البذل والمنع، فتكون مالًا لكنها غير متقومة لما قلنا أتقاني."

(کتاب الأشربة، ج:6، ص:449، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511100050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں