بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مقروض کا زکوۃ لینا اور اس سے قرض ادا کرنے کا حکم


سوال

میرے اوپر بہت سے قرضے ہیں اور میری ملکیت میں صرف ایک موبائل فون ہے ۔

۱۔ کیا میں زکوۃ لے سکتا ہوں۔؟

۲۔اور زکوۃ کے پیسوں سے لوگوں کےقرضےاداکرسکتاہوں۔؟واضح رہے کہ میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

جواب

1۔ زکوۃ اس شخص کے لئے لینا جائز ہے جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے اس قدر زائد رقم یا سامان نہ  ہوجس کی قیمت نصاب(یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی)کے برابر ہو، اور نہ ہی وہ ہاشمی (سید،عباسی) ہو،لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل قرض دار ہے، اور  وہ ہاشمی (سید،عباسی) نہیں اوراس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب کےبرابررقم یا سامان بھی  نہیں ہے تو سائل قرض کی مقدار   زکوۃ لےسکتاہے ۔

2.نیزاس  صورت  میں سائل زکوۃ  لےکر ان  پیسوں سے قرضے بھی ادا کرسکتا ہے۔

نوٹ: یہ سوال کا جواب ہے نہ حقیقت واقعہ کی تصدیق ہے اور نہ ہی سفارش ہے۔ زکوۃ دینے والے خود اپنی تسلی کر کے زکوۃ ادا کرسکتے ہیں۔

فتاوى عالمگیریۃ  میں ہے:

"(ومنها: الغارم) وهو من لزمه دين، ولايملك نصابًا فاضلًا عن دينه أو كان له مال على الناس لايمكنه أخذه، كذا في التبيين. والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير، كذا في المضمرات".

(كتاب الزكاة، الباب السابع فى المصارف، ج:1، ص:188 ط : رشيدية) 

ایضاً:

"ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج:1، ص:189 ط : رشيدىة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608102058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں