بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مستاجر کا دوکان موجر کے منع کرنے کے باوجود آگے کرائے پر دینا


سوال

ایک شخص نے دوسرے کو دکان کرائے پر دی اور دوسرے نے پہلے شخص کے منع کرنے باوجود آگے کسی اور کو کم کرائے پر دکان دے دی۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں دوسرے شخص نے اگر ایسے شخص کو دوکان کرائے پر دی ہے جس کے کام کی نوعیت  اس دوسرے شخص کے کام کی طرح ہے تو پھر دوسرے شخص کا یہ فعل درست ہے اور پہلے شخص کے منع کرنے سے کرایہ دار کا یہ اختیار ختم نہیں ہوگا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ دوسرا شخص تیسرے شخص سے صرف اتنا ہی کرایا وصول کر سکے گا جتنا وہ ادا کررہا ہے یا اس سے کم وصول کرسکے گا، زیادہ وصول کرنے کی شرعا اجازت نہیں ہوگی۔

اگر کسی ایسے شخص کو د کان کرائے پر دی جا رہی ہے جس کے کام کی نوعیت دوسرے شخص کے کام سے مختلف ہے تو پھر  دوسرے شخص کا یہ فعل درست نہیں ہے اور دوسرے شخص کے لیے پہلے شخص سے اجازت لینا ضروری ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأصل عندنا أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به. كذا في المحيط."

(کتاب الاجارۃ ، باب سابع ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۲۵،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(تصح) (إجارة حانوت) أي دكان»«ودار بلا بيان ما يعمل فيها) لصرفه للمتعارف (و) بلا بيان (من يسكنها) فله أن يسكنها غيره بإجارة وغيرها كما سيجيء (وله أن يعمل فيهما) أي الحانوت والدار (كل ما أراد) فيتد ويربط دوابه ويكسر حطبه ويستنجي بجداره ويتخذ بالوعة إن لم تضر ويطحن برحى اليد وإن به ضر به يفتى قنية (غير أنه لا يسكن) بالبناء للفاعل أو المفعول (حدادا أو قصارا أو طحانا من غير رضا المالك أو اشتراطه) ذلك (في) عقد (الإجارة) ؛ لأنه يوهن البناء فيتوقف على الرضا».

(قوله فله أن يسكنها غيره) أي ولو شرط أن يسكنها وحده منفردا سرى الدين وهذا في الدور والحوانيت ط ومثله عبد الخدمة فله أن يؤجره لغيره، بخلاف الدابة والثوب، وكذا كل ما يختلف باختلاف المستعمل كما في المنح.

قوله؛ لأنه يوهن إلخ) قال الزيلعي: فحاصله أن كل ما يوهن البناء أو فيه ضرر ليس له أن يعمل فيها إلا بإذن صاحبها، وكل ما لا ضرر فيه جاز له بمطلق العقد واستحقه به."

(کتاب الاجارۃ باب ما یجوز من الاجارۃ و ما یکون خلافا فیہ ج نمبر ۶ ص نمبر۲۷،ایچ ایم سعید)

شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"المادة ٥٨٧: للمستأجر ايجار ما لم يتفاوت استعماله وانتفاعه باختلاف الناس لاخر.

سواء كان المأجور عقارا او منقولا علي التفصيل المتقدم في المادة السابقة و سواء شرط عليه المؤجر ان يستعمله بنفسه او لم يشرط لما مر في المادة (٤٣٨) من ان تقييد فيما لا ىختلف باختلاف المستعملين باطل."

(کتاب الاجارات ، باب سابع، فصل ثانی ج نمبر ۲ ص نمبر ۶۸۷،مکتبہ حقانیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں