محترم جناب ایک فتویٰ کا حوالہ دیتا ہوں، فتویٰ نمبر 144012200244جس میں کسی کمپنی کو ٹرانسپورٹیشن فراہم کرنے پر کمیشن لینے کے حوالے سے ہے ،بعینہٖ اسی صورت میں کسی آدمی کی گاڑی میں باہر سے لایا ، اگر کمپنی کی انتظامیہ نے مجھے رقم نہیں دی، یا وہ بھاگ نکلی تو مذکورہ شخص جس کی گاڑی باہر سے لایا ہوں کو رقم دینے کا ذمہ دار میں ہوں یا نہیں ؟
مذکورہ فتوی کا سوال درج ذیل ہے:
میں امارات میں کام کرتا ہوں، جہاں میں ایک کمپنی کو ٹرانسپورٹیشن کی سہولت فراہم کرتا ہوں، جب ان کو سروس درکار ہوتی ہے وہ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں، میں سروس چارجز بتادیتا ہوں، جب میرے ریٹ منظور ہوجاتے ہیں تو مجھے وہ آگاہ کرتے ہیں، جس کے بعد میں باہر سے (کمپنی کو دیے گئے اپنے ریٹ سے کم میں) کوئی گاڑی حاصل کرکے وہ کمپنی کو فراہم کردیتا ہوں، باہر کی گاڑی والے کا مجھ سے کنٹریکٹ ہوتا ہے، کمپنی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، گاڑی کے حوالے سے تمام جواب داری میری ہوتی ہے، کیا میرا ایسا کرنا صحیح ہے؟
صورتِ مسئولہ میں کمپنی سے معاملہ طے کرنے کے بعد جس ڈرائیورکو آپ اپنے طور پر بلاتے ہیں، اور اس کا معاہدہ بھی آپ سے ہوتا ہے، لہٰذا کمپنی اگر بھاگ جائے یا آپ کو رقم نہ دے تو اس صورت میں بھی باہر سے لائے گئے ڈرائیور کی اجرت آپ کے ذمہ ہوگی؛ اس لیے کہ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہیں۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي. وكما يجب الأجر باستيفاء المنافع يجب بالتمكن من استيفاء المنافع إذا كانت الإجارة صحيحة حتى إن المستأجر دارا أو حانوتا مدة معلومة ولم يسكن فيها في تلك المدة مع تمكنه من ذلك تجب الأجرة، كذا في المحيط."
(كتاب الإجاره، الباب الثاني متى تجب الأجرة وما يتعلق به من الملك وغيره، ج: 4، ص: 412، ط: دار الفكر بيروت)
العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"ولأن الأجرة لا تستحق إلا بعد حصول المنفعة للمستأجر."
(كتاب الإجارة، ج: 2، ص: 27)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101348
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن