بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

معتدہ کے لیے پاسپورٹ بنوانے جانا


سوال

 زید نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ہے، اور اب اچانک بیوی کے عمرے پر جانے کے وسائل بن گئے ہیں، عمرے پر جانے کی تاریخ تو عدت کے بعد کی ہی طے ہوئی ہے، لیکن عدت کے دوران بیوی کو ایک دفعہ پاسپورٹ  آفس جانا پڑے گا۔ تو کیا شریعت اس مجبوری کی صورت میں جانے کی اجازت دیتی ہے ؟ جب کہ زید نے ابھی تک رجوع تو نہیں کیا ہے، مگر  ان کو بیوی کے جانے پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے، اور  اگر شریعت اس مجبوری کی صورت میں اجازت نہیں دیتی اور بیوی چلی جائے تو کفارہ  کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ عدت  کے دوران عورت کا بلا ضرورت شرعیہ  گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر ضرورت اتنی شدید ہو کہ اُس کے جائے بغیر مسئلہ حل نہ ہوتا ہو تو اس مجبوری کی خاطر عورت دن کے اوقات میں گھر  سے نکل سکتی ہے، لیکن رات کو گھر واپس آنا  ضروری ہے۔

صورتِ  مسئولہ  میں اگر  خاتون کے لیے پاسپورٹ بنانا ضروری ہے، اور سفر  کی تاریخ ایسی ہے کہ اگر ابھی پاسپورٹ نہیں بنایا تو ٹکٹ کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، اور عدت ختم ہونے تک انتظار کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ، تو پھر معتدہ عورت کے لئے عدت کے دوران پاسپورٹ بنانے کے لیے دن میں پاسپورٹ آفس میں   جانے کی اجازت ہوگی اور اگر تاریخ تبدیل کرکے  عدت کے بعدپاسپورٹ  بنانے میں کوئی مجبوری نہ ہو، نہ ہی ٹکٹ کے ضائع ہونے یا جرمانہ عائد ہونے کا خدشہ ہو،  تو پھر عدت کے بعد بنائے، عدت کے دوران پاسپورٹ آفس نہ جائے۔

نیز موجودہ دور میں آن لائن پاسپورٹ بنانے کی بھی سہولت آچکی ہے، ماہرین سے مشورہ کرکے اس سہولت سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے گھر میں ہی پاسپورٹ کی درخواست جمع  کروادیں، اگر اس میں مشکلات در پیش ہوں تو پھر دن ہی دن میں پاسپورٹ آفس جانے کی اجازت ہوگی، تاہم کام مکمل ہوتے ہی گھر واپس آنا ضروری ہوگا، کسی اور کام کے لیے جانے کی اجازت نہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(باب العدة، فصل في الحداد، ج:3، ص:536، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"والأصل فيه ما روي «أن فريعة أخت أبي سعيد الخدري رضي الله عنه لما قتل زوجها أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» وفي رواية «لما استأذنت أذن لها ثم دعاها فقال: أعيدي المسألة فأعادت فقال: لا، حتى يبلغ الكتاب أجله» أفادنا الحديث حكمين: إباحة الخروج بالنهار، وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها صلى الله عليه وسلم من الانتقال، فدل على جواز الخروج بالنهار من غير انتقال."

(کتاب الطلاق، فصل في أحكام العدة، ج:3، ص:205، ط: دار الکتب العلمیة)

البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.

والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل فى الاحداد، ج:4، ص:166، ط: دارالكتاب الاسلامى)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

”دورانِ  عدت عورت کا ویزہ کے حصول  کے لیے نکلنا

سوال : اگر غریب الوطنی میں کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتے اور دوران عدت عورت کو ویزہ لگوانے کی ضرورت پڑ جائے اور عورت کے جائے بغیر ویزہ لگوانا ممکن نہ ہوتو کیا یہ عورت دوران عدت ویزہ لگوانے  کے لیے متعلقہ دفتر جا سکتی ہے یا نہیں ؟

الجواب :  عدتِ  طلاق کی ہو یا وفات کی دونوں کے دوران عورت کا بلا ضرورتِ شرعی کے گھر سے نکلنا جائز نہیں، البتہ اگر ضرورت اتنی شدید ہو کہ اُس کے جائے بغیر مسئلہ حل نہ ہوتا ہو تو اس مجبوری کی خاطر عورت گھر سے نکل سکتی ہے مگر رات کو گھر واپس آنا بہر حال ضروری ہے؛  لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت  ویزه  کے لیے دوران عدت جا سکتی ہے ۔“

(باب العدۃ، ج:4، ص: 541، ط: دارالعلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144602101958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں