1.میں نے کافی عرصہ پہلے سے سودی بینکوں مین سیونگ اکاؤنٹ کھولا تھا ، جن میں کچھ سالوں کاحساب تو مجھے یاد ہے کہ میرا کتنا سرمایہ تھا اور اس پر بینک کی طرف سے کتنا نفع ملا ہے ، لیکن کچھ سالوں کا معلوم نہیں کہ میرا سرمایہ کتنا تھا اور اس پر بینک کا نفع کتنا آیا ہے ، اب میں ان سالوں کا کیسے حساب لگاؤں کہ سودی رقم کسی ضرورت مند کو دے دوں اور عند اللہ بری ہو جاؤں۔
2۔ کچھ سالوں سے میں نے اسلامی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے ، اس پر بھی نفع مل رہا ہے ، اسلامی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز ہے یانہیں ؟
3۔پرائز بونڈ پر انعام مل رہا ہے ان کا لینا جائز ہے یا نہیں ؟
4۔ حکومت کی سیونگ سرٹیفکیٹس پر منافع لینا جائز ہے یا نہیں ؟
5۔میری کئی سالوں کی زکوۃ بھی باقی ہے ، میرے سرمایہ میں کچھ سودی رقم ہے ، لیکن میرا جو حلال سرمایہ ہے ، اس کی زکوۃ کا کس طرح حساب لگاؤں ، گزشتہ سالوں کا کیسے حساب لگاؤں ؛ کیونکہ کچھ سالوں تو حساب ہے ، بقیہ کوئی حساب نہیں ہے ، اب ان کا میں کیسے حساب لگاؤں ؟
1۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کو جتنے عرصے کا حساب یاد ہے ، اس کا حساب لگا کر اور بقیہ عرصے کا انداز لگا لے اور غالب گمان کے مطابق عمل کرتے ہوئے سودی رقم کو ثواب کی نیت کے بغیر غرباء اور فقراء کو صدقہ کردے۔
2۔ مروجہ اسلامی (غیر سودی) بینکاری میں بھی وہ خرابیاں پائی جاتی ہیں جو سودی بینکوں میں ہوتی ہیں ؛ لہذا جس طرح سودی بینکوں میں رقم جمع کرواکر اس پر نفع لینا سود ہے ، اسی طرح اسلامی بینکاری میں بھی رقم جمع کرواکر اس پر نفع لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ۔
3۔پرائز بونڈ انعام کا لینا بھی جا ئز نہیں ہے ،پرائز بونڈ کا انعام شرعاً سود میں داخل ہے ۔
4۔ناجائز اور حرام ہے ۔
5۔سائل کو جن سالوں کا حساب یاد ہے ، ان کے زکوۃ کا حساب لگا کر اور جن سالوں کا حساب یاد نہیں ، ان کے زکوۃ کا انداز لگا لے اور غالب گمان کے مطابق عمل کرتے ہوئےجتنی زکوۃ بنے ، وہ ادا کردے اور کچھ زیادہ ادا کردے ، ساتھ ساتھ کمی کوتاہی اور اس غفلت پر توبہ و استغفار بھی کرے۔
قرآن کریم میں ہے:
﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوآ اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَآءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّٰهُ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خٰلِدُونَ﴾ [البقرة:۲۷۵ ]
﴿يَآأَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾
(المائدة: ۹۰)
احکام القرآن میں ہے:
"ولا خلاف بین أهل العلم في تحریم القمار".
(أحکام القرآن للجصاص : 540/1 ، ط : قدیمي کتب خانه)
حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."
(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکله : ۳ / ۱۲۱۹ ، ط : داراحیاءالتراث العربی)
السنن الكبري للبيہقی ميں ہے:
"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا " موقوف۔"
(باب كل قرض جر منفعة فهو ربا:573/5،رقم:10933،ط:دارالکتب العلمیۃ)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً ؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔"
(کتاب الحظر و الإباحة ، فصل في البیع : 6 / 403 ، ط : سعید)
«الأشباه والنظائر - ابن نجيم» میں ہے :
"وأما أكبر الرأي وغالب الظن فهو الطرف الراجح إذا أخذ به القلب ، وهو المعتبر عند الفقهاء..............وغالب الظن عندهم ملحق باليقين۔"
(الفائدۃ الثانیۃ : 63 ، ط : دار الكتب العلمية)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100219
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن