بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ ثلاثہ پہلے شوہر کے لئے صحبت کے بغیر حلال ہوگی یا نہیں؟


سوال

اگر ایک شخص اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں، اور بعد میں خاوند کو احساس ہو کہ میں نے غلط کیا ہے، اور اب وہ دوبارہ اکٹھا رہنا چاہیں ،تو کیا وہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح کرے، صرف حلالہ کی نیت سے، اور وہ جس شخص سے حلالہ کی نیت سے نکاح کر رہی ہو ،اس نکاح میں یہ شرط بھی ہو کہ وہ خاوند اس کو ایک رات کے بعد طلاق دے دے گا ،اور وہ اس رات میں ہمبستری بھی نہیں کرے گا، تو کیا اس صورت میں دوسرے خاوند سے طلاق کے بعد، عدت گزارنے کے بعد، واپس پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے یا نہیں؟ اور کیا وہ نکاح حلال ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ طلاقِ ثلاثہ کے بعد میاں بیوی کے لیے جو حرمتِ مغلظہ ثابت ہوتی ہے، اس کے ختم ہونے کے لیے  شرعاً تین چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے:

1) مطلقہ  عدت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے۔

2) صحتِ نکاح کے لیے شرعاً جو شرائط مقرر ہیں، دوسرے نکاح میں ان تمام شرائط کو پورا کیا گیا ہو۔

3) نکاح کے بعد دوسرا شوہر عورت سے  ازدواجی تعلق ( صحبت) بھی قائم کرے، دوسرے شوہر  کے  ساتھ صرف خلوتِ صحیحہ ہونے سے عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ حرمتِ مغلظہ کے ختم ہونے کے لیے صحبت کے دوران دوسرے شوہر کا صرف دخول کرلینا کافی ہے، انزال ضروری نہیں ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر صرف نکاح کرکے طلاق لے لی گئی ،شوہر ثانی نے عورت سے دخول نہیں کیا ،تو عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوسکتی ،اگر بغیر دخول کیے شوہر اول سے نکاح کیا،تو یہ نکاح حلال نہیں ہوگا۔

نیز واضح رہے کہ حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا سخت گناہ ،لعنت کا سبب اور مکروہ تحریمی ہے،احادیث میں ایسی شرط کے ساتھ نکاح کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہے،اسی لیے ایسی شرط لگانے سے احتیاط لازمی ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة...إنما تنتهي الحرمة وتحل للزوج الأول بشرائط منها النكاح، وهو أن تنكح زوجا غيره لقوله تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]...منها أن يكون النكاح الثاني صحيحا حتى لو تزوجت رجلا نكاحا فاسدا ودخل بها لا تحل للأول؛ لأن النكاح الفاسد ليس بنكاح حقيقة...منها الدخول من الزوج الثاني، فلا تحل لزوجها الأول بالنكاح الثاني حتى يدخل بها، وهذا قول عامة العلماء...المراد من النكاح: الجماع؛ لأن النكاح في اللغة هو الضم حقيقة، وحقيقة الضم في الجماع، وإنما العقد سبب داع إليه فكان حقيقة للجماع مجازا للعقد مع ما أنا لو حملناه على العقد لكان تكرارا؛ لأن معنى العقد يفيده ذكر الزوج فكان الحمل على الجماع أولى...أما الحديث فما روينا عن عائشة   رضي الله عنها  أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير فأتت رسول الله   صلى الله عليه وسلم   وقالت: إن رفاعة طلقني، وبت طلاقي؛ فتزوجني عبد الرحمن بن الزبير ولم يكن معه إلا مثل هدبة الثوب؛ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أتريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا، حتى تذوقي من عسيلته، ويذوق من عسيلتك...أما الإنزال فليس بشرط للإحلال؛ لأن الله تعالى جعل الجماع غاية الحرمة، والجماع في الفرج هو التقاء الختانين فإذا وجد فقد انتهت الحرمة."

(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 189، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیماتحل به المطلقة و ما یتصل به، ج: 1، ص: 473، ط: رشیدیه)

و فیہ ایضاً:

"الإيلاج في أحد السبيلين إذا توارت الحشفة يوجب الغسل على الفاعل والمفعول به أنزل أو لم ينزل وهذا هو المذهب لعلمائنا. كذا في المحيط وهو الصحيح. كذا في فتاوى قاضي خان ولو كان مقطوع الحشفة يجب الغسل بإيلاج مقدارها من الذكر. كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الطهارۃ، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل، ج: 1، ص: 15، ط: رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) التزوج للثاني (تحريمًا) لحديث: «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي۔۔۔۔۔۔ (أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي.

(قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.

وأورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. وأجاب في الفتح بأنه لا يلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، وإنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك وصار مشتهرا به اهـ تأمل."

(كتاب الطلاق، ج:٣، ص:٤١٤، ط:سعيد)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں