بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کا حمل قبل از وقت ساقط ہونے کی صورت میں عدت کا حکم


سوال

دو سال پہلے ایک لڑکی کی شادی ایک لڑکے سے ہوئی،شروع دنوں میں گھریلو ناچاقیاں شروع ہوئیں،شوہر اور سسرال والوں کی طرف سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑکی کی سرزنش کی جاتی تھی،جس سے لڑکی بد دل ہوئی،اس دوران شوہر نے دو مرتبہ بیوی کو معمولی باتوں پر ماں کے گھر چھوڑا،پھر بڑوں نے صلح صفائی کرلی تو شوہر واپس بیوی کو اپنے ہاں لے گیا،اس دوران ان کی ایک بچی بھی ہوئی،بچی کی پیدائش کے چھ ماہ بعد  ایک مرتبہ پھر معمولی ناچاقی پر بیوی کو گھر بھیج دیا گیا،اس دوران بیوی کو چھت سے گرانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی،اور ایک ویڈیو بنائی تھی شوہر نے باپ کے ساتھ مل کر کہ میری بیوی کو دورے پڑتے ہیں،یہ خودکشی کرنے جارہی ہے،جب کہ وہ اپنے کمرے جارہی تھی اوپر، بہرحال6جون2021 کو لڑکی اپنے اماں کے گھر آگئی،اور 14جون 2021کو شوہر نے  ایک طلاق بھجوادی،جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا، تو وہ کہنے لگا کہ تنبیہ کے لیے ایک طلاق بھجوائی تاکہ یہ اپنے کوائف درست کرے،8ستمبر2021 کو شوہر نےرجوع کی دستاویز بھیجی،لیکن بیوی کے خاندان کے بڑوں نے منع کردیا کہ ہم رجوع نہیں کریں گے،جب چھ جون کو بیوی میکے آئی تو اسے حمل تھا، جس کا اسے اور نہ کسی اور کو علم تھا،22جون 2021 کو صدمے اور ڈپریشن کی وجہ سے حمل ضائع ہوگیا، بیوی 10جولائی تک عذر سے رہی(یہ ایک حیض ہوا)اگست میں دوسرا حیض گزرا،اور 8ستمبر کو جب شوہر نے رجوع کے ڈاکومنٹس بھیجے تو وہ عذر سے تھی۔

1۔اب اس صورتحال میں  میاں بیوی کے مابین رشتہ ازدواج قائم ہے؟

2۔یکطرفہ رجوع کا کیا حکم ہے؟(کیونکہ رجوع کے وقت لڑکی ماں کے گھر تھی)

3۔اگر خلع کے لیے کوشش کی جائے تو شریعت کی رو سے کیا کرنا ضروری ہوگا؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  مذکورہ خاتون کا حمل   ضائع ہوتے وقت  اس میں اگر انسانی اعضاء میں کسی عضو مثلاً: ہاتھ، پاؤں،انگلی یا ناخن وغیرہ کی بناوٹ ظاہر ہوچکی تھی تو مذکورہ خاتون کی عدت حمل ساقط ہوتے ہی ختم ہوگئی تھی، اور شوہر کا رجوع چونکہ اس کے بعد ہوا تھا، لہٰذا اس کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکا ہے،لیکن اگر حمل ساقط ہوتے وقت ا س میں انسانی اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہیں ہوئی تھی تو  اس حمل کا اعتبار نہیں ہے،اور حمل ضائع ہونے سے مذکورہ خاتون کی عدت ختم  نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس صورت میں خاتون کی عدت تین ماہواریاں مکمل ہونے تک ہی ہو گی،اور شوہر نے اگر تیسرے حیض کے دوران رجوع نامہ بھیج دیا، لہٰذاشوہر کا رجوع عدت کے اندر پایا گیا، اس وجہ سے اس کا رجوع درست ہوا، اور میاں بیوی کا نکاح برقرار ہے، البتہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔

2۔رجوع میاں بیوی کے درمیان نئے تعلقات قائم کرنے کا نام نہیں کہ اس کے لیے بیوی کی رضامندی یا قبول کرنا ضروری ہو، بلکہ یہ میاں بیوی کے درمیان اس سابقہ تعلق کو بحال کرنے کا نام ہے جو شوہر کی وجہ سے منقطع ہواتھا، لہٰذا  عدت کے اندر شوہر کو کسی بھی وقت زبانی(شوہر کہے یا لکھ بھیجے کہ میں نے تم سے رجوع کرلیا)یا عملی طور پر (میاں بیوی میں ازدواجی تعلق قائم ہوجائے یا شوہر شہوت  کے ساتھ بیوی کو چھولے یا بوسہ لے)   رجوع کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اور اس کے لیے بیوی کی رضامندی یا قبول کرنا  شرط نہیں ہے،لہٰذا  اگر عورت کی عدت مکمل ہونے سے پہلے شوہر نے یہ رجوع نامہ بھیجا ہے تو اس سے شرعا رجوع ہوگیا،اور نکاح برقرار ہے،اگرچہ لڑکی یا اس کے گھر والے اس پر راضی نہ ہوں۔

3۔شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان اگر ناچاقیاں ہوں تو دونوں خاندان کے بڑے اور معزز افراد آپس میں بیٹھ کر صلح کی کوئی صورت نکال لیں، اور حتی الامکان دونوں گھر بسانے کی بھرپور کوشش کریں، بلا کسی سنگین وجہ کے بیوی کے لیے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا شرعا ناپسندیدہ ہے،  احادیث مبارکہ میں ایسی عورت کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ جو عورت بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے، لیکن اگر میاں بیوی کا آپس میں رہنا واقعۃً دشوار ہو تو بیوی  کسی طریقے سے شوہر کو طلاق پر آمادہ کرے،اگر  شوہرطلاق پر راضی نہ ہو تو پھر بیوی مہر معاف کرنے  یا واپس کرنے کے بدلے شوہر کو خلع پر راضی کرلے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ والدارمي"

(کتاب النکاح،باب الخلع والطلاق،ص283،ط:قدیمی)

الدر مع الرد میں ہے:

"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (‌ظهر ‌بعض ‌خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء"

"وفی الرد:(قوله أي مسقوط) الذي في البحر التعبير بالساقط وهو الحق لفظا ومعنى؛ أما لفظا فلأن سقط لازم لا يبنى منه اسم المفعول، وأما معنى فلأن المقصود سقوط الولد سواء سقط بنفسه أو أسقطه غيره ح"

(کتاب الطہارۃ،باب الحیض،ج1،ص302،ط:سعید)

تنوير الابصار مع الرد ميں هے:

"(هي استدامة الملك القائم) (في العدة)الي قوله وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطإ (بنحو)(رجعتك)

وفي الرد (قوله: هي استدامة الملك) عبر بالاستدامة بدل الرد الذي هو معنى الرجعة لأن المتبادر منه ما يكون بعد الزوال. فينافي قوله \" القائم \" ولأن المراد به هنا الإبقاء قال تعالى {وبعولتهن أحق بردهن} [البقرة: 228]"

(كتاب الطلاق،باب الرجعة،ج3،ص397،ط:سعيد)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں