بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

متاثرین کے لیے مختص راشن فروخت کرنے کا حکم


سوال

 ایک ادارہ کے دفتر کاحاکم راشن کا دیاہوا سامان بیچنا چاہتا ہے؛ کیوں کہ وہ کہتا ہے کہ متاثرین کو میں نے سامان تقسیم کیا ہے،  اور ابھی بچا ہوا سامان ضائع ہونے کی وجہ سے بیچنا چاہتا ہوں، توکیا یہ راشن کا سامان کاروبار کے لیےخریدنا جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دفتر کے حاکم کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ متاثرین کا بچاہوا راشن فروخت کرے، بلکہ وہ راشن متاثرین میں تقسیم کرناضروری ہے، بصورتِ دیگر دفتر کاحاکم سخت گناہ گارہوگا، اسی طرح جب خریدنے والے کو یہ معلوم ہو کہ مذکورہ راشن متاثرین کے لیے وقف تھا اور یہ حاکم  اپنی مرضی سے اس کو فروخت کررہاہےتو ایسے راشن کاخریدنااوراس سے کاروبار کرنا بھی  جائزنہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي مختارات النوازل لصاحب الهداية: ‌فقير ‌مات ‌فجمع من الناس الدراهم وكفنوه وفضل شيء إن عرف صاحبه يرد عليه وإلا يصرف إلى كفن فقير آخر أو يتصدق به."

(كتاب الصلاة،باب صلاة الجنازة،ج:2،ص:206،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"إن ‌شرائط ‌الواقف ‌معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.  قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم."

(كتاب الوقف،مطلب متی ذكرللوقف مصرفا،ج:4،ص:366،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌ولو ‌باع ‌السارق المسروق من إنسان، أو ملكه منه بوجه من الوجوه، فإن كان قائما فلصاحبه أن يأخذه؛ لأنه عين ملكه، وللمأخوذ منه أن يرجع على السارق بالثمن الذي دفعه."

(كتاب السرقة،فصل في حكم السرقة،ج:7،ص:85،ط:دارالكتب العلميه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں