سوال
ہمارے محلہ میں ایک مسجد ہے جو کہ پہلے ایک صاحب کا گھر تھا اور 2010 میں انہوں نے اپنے اس گھر کو مسجد کے لیے وقف کیا تھا اور یہ وقف زبانی تھا،اور ایک اسٹامپ پیپر پر بھی انہوں نے وقف نامہ پر دستخط کئے تھے، لیکن وہ پیپر گورنمنٹ سے اب تک رجسٹرڈ نہیں ہوئے جس وجہ سے یہ جگہ قانوناً وقف نہیں اور مکان کے کاغذات آج تک ان کے ہی نام پر ہیں ، اور وہ خود ملک سے باہر تھے اور انہوں نے اس مسجد کی جو انتظامیہ رجسٹر ڈ کرائی اس میں تمام افراد اپنے گھر ہی کے رکھے اس لیے کہ وہ خود متولی، خود واقف اور مسجد کےتقریباً تمام تر اخراجات بھی برداشت کر رہے تھے باقی اخراجات میں کچھ حصہ علاقے والے بھی لے رہے تھے ور یہ مسجد کبھی بھی نہ مالی طور پر متاثر ہوئی اور نہ ہی کبھی چندہ کے اعلان کی نوبت آئی، اپنی انتظامیہ میں انہوں نے صرف ایک فرد اسی علاقہ کالیا تا کہ وہ ان کے ساتھ نظم ونسق میں معاون ہو۔ گزشتہ دو سال سے اہل محلہ کو ان متولی پر اعتراض تھا ، ان اعتراض کی تفصیل درج ذیل ہے:وہ مسجد کے معاملات میں دخل اندازی بہت کرنے لگے مثلا ان کا کہنا تھا کہ ایک کیل بھی اگر کوئی دیوار میں ٹھونکے گا تو اس میں میری اجازت ہوگی اور اسی طرح مدرسہ میں 80 بچوں سے زیادہ پر علاقے والے اصرار کرتے رہے کہ بچے بڑھائیں لیکن وہ کہتے تھے کہ ہمیں اتنے ہی بچے رکھنے ہیں مزید نہیں بڑھانے اور مسجد میں کوئی بے وقت آجائے تو وہ کیمرے میں فوراً دیکھ لیتے تھے اور فوراً خادم کو فون کردیتے کہ یہ کون آیا اور کن گیا اور اسی طرح واش روم کی حالت بہت خستہ ہوگئی تھی ا ور علاقہ مکین چاہتے تھے کہ واش روم نئے بنا لیے جائیں لیکن ان کی طرف سے اجازت نہیں ملتی تھی عمارت کا رنگ بھی کافی خراب ہوچکا تھا لیکن ان کی طرف سے رنگ کی بھی اجازت نہیں مل رہی تھی اور حتی کہ انہوں نے امام خادم اور مؤذن کے کمرے میں بھی کیمرہ لگایا دیا تھا اور ان کی ان تمام باتوں کی وجہ سے علاقہ مکین کافی پریشان تھے ۔ لہٰذ اہل محلہ نےایک وکیل سے قانونی مشورہ کیا کہ ہم اہل علاقہ اپنی کمیٹی بنانا چاہتے ہیں تا کہ مسجد کا کام بحسن خوبی انجام دیے جائیں تو انہوں نے ہمیں مشورہ دیا کہ یہ جگہ وقف ہے اس پر عوام کا چندہ بھی ہوگیا ہے اور اس جگہ کے بجلی کے میٹر بھی مسجد کے نام پر ہیں لہذا آپ اپنی کمیٹی بنالیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے پھر ہم نے ان کی اجازت کے بغیر اور ان کو بتائے بغیر مسجد کی نئی انتظامیہ بنالی، اور یہ بات ان کے علم میں آرہی تھی کہ اہلِ محلہ اپنی انتظامیہ بنارہے ہیں جس پر انہوں نے تحریری طور پر یہ پیغام بھی بھیجا کہ وہ اپنی انتظامیہ نہ بنائیں اور آخر میں ایک صاحب نے ان کوبتا بھی دیا تھا کہ اب محلہ والوں کی انتظامیہ بن گئی ہے ( پہلے جو انہوں نے انتظامیہ بنائی تھی اس کو 3 سال سے زائد عرصہ ہو چکا تھا، اور ہر 3 سال میں مسجد کی انتظامیہ کی تجدید ہوتی ہے، یہ بات ان کے علم میں نہیں تھی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اب شاید ہماری کمیٹی تاحیات ہے لیکن اہل محلہ کو اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ 3 سال ہو چکے ہیں لہٰذا ہم اب ہم اپنی نئی کمیٹی بنا لیتے ہیں) اور بعد میں اہل محلہ نے متولی تک پیغام بھیجا کہ ہم نے نئی انتظامیہ رجسٹر ڈ کر لی ہے، اور اس نئی کمیٹی پر وہ متولی راضی نہیں تھے اور نہ اب ہیں، متولی نے آخر میں اہل محلہ سے کہہ بھی دیا تھا کہ آپ نئی انتظامیہ رجسٹر ڈ نہ کر یں بلکہ آپ جس طرح چاہتے ہیں اپنا کام کرتے رہیں ، ہم آپ کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے، انتظامیہ میں ہمارے افراد ہی رہنے دیں، لیکن اہلِ محلہ نئی انتظامیہ رجسٹر ڈ کر چکے تھے۔علاقے والوں نے جو کمیٹی بنائی ہے اس کا مقصد مسجد پر قبضہ نہیں بلکہ مسجد کے انتظامات کو بہتر کرنا تھا اور علاقوں والوں کے ذہن میں یہ بات بھی ہے کہ ایک عرصہ سے لوگ بھی کچھ کچھ ماہانہ چندہ دے کر اپنا حصہ ملاتے ہیں اور وہ زبانی وقف بھی کرچکے ہیں اور وقف پیپر پر دستخط بھی کیے ہیں اب سوال یہ ہے کہ متولی کی اجازت کے بغیر ہم اہل محلہ کا مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر نئی کمیٹی رجسٹر ڈ کر ناشر عادرست ہے یا نہیں؟ براۓ کرم اس میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب
واضح رہے کہ اگر مسجد کا بانی و واقف موجود ہے توسب سے پہلےمتولی بننے کا حق دار وہ خود ہوتا ہے، اور اگر کسی اور کو متولی بنانا ہو، یا مسجد کے لیے انتظامیہ بنانی ہو تو اس کا اختیار بھی اولاً واقف اور بانی کو ہے، اس کی اجازت کے بغیر کسی اور کو متولی مقرر کرنا یا نئی انتظامیہ بنانا شرعاً جائز نہیں، البتہ اگر واقف نا اہل ہو یا اس کی جانب سے مسجد كے انتظام ميں خیانت کی گئی ہو تو صرف اس صورت میں قاضی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ اس کی جگہ کسی اور کو متولی مقرر کردے، لیکن چوں کہ صورتِ مسئولہ میں واقف نے آخر میں اہلِ محلہ کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے؛ لہٰذا مسجد کے انتظام اور تولیت کے وہی حق دار ہیں، اور اہلِ محلہ کےلیے واقف کی اجازت کے بغیر مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر نئی انتظامیہ رجسٹرڈ کروانا شرعاً درست نہیں تھا ،تاہم اگر وقف کرنے والے متولی کو راضی کرلیں تو درست ہوجائے گا ورنہ مسجد کے واقف کو ہی مسجد کا انتظام سنبھالنے دیں، اور مسجد کا انتظام چلانے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں۔ مسجد اللہ کا گھر ہے ، ہر ایک اس کی خدمت کا جذبہ رکھے، اسے اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھا جائے اور علاقے کے لوگ ضروری کام کروانا چاہیں تو متولی منع نہ کرے۔
الفتاویٰ العالمگیریہ میں ہے:
"رجل بنى مسجدا وجعله لله تعالى فهو أحق الناس بمرمته وعمارته وبسط البواري والحصر والقناديل، والأذان والإقامة والإمامة إن كان أهلا لذلك فإن لم يكن فالرأي في ذلك إليه. كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الصلاة، الباب الثامن في الوتر، ج:1، ص:110، ط: دار الفكر)
رد المحتار میں ہے:
"(وينزع) وجوبا بزازية (لو) الواقف درر فغيره بالأولى (غير مأمون) أو عاجزا أو ظهر به فسق كشرب خمر ونحوه فتح أو كان يصرف ماله في الكيمياء نهر بحثا (وإن شرط عدم نزعه) أو أن لا ينزعه قاض ولا سلطان لمخالفته لحكم الشرع فيبطل كالوصي، فلو مأمونا لم تصح تولية غيره أشباه."
(كتاب الوقف، ج:4، ص:380-381-382، ط:ايچ ايم سعيد)
تقریرات رافعی میں ہے:
"الذي حققه السندي بعبارة طويلة: ( أن الوصي أو المتولي المنصوب من الواقف أو القاضي لو لم يتحقق من أحدهما خيانة، و أراد من عدا قاضي القضاة عزله، و إقامة غيره مقامه ممن هو أصلح منه و أورع فليس له ذلك، ولا يتولي ذلك إلا قاضي القضاة)."
(كتاب الوقف، ج:13، ص:499،ط: دار الثقافة و التراث)
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء :
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن