کیا میوچول فنڈ میں انویسٹ کرنا حلال ہے؟
اگر ہاں تو کون سے بینک کے میوچول فنڈ میں انویسٹ کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو بینک کی ایسی کون سی اسکیم ہے جس میں انویسٹمنٹ کرنا حلال ہے ؟
1۔ واضح رہے کہ میوچل فنڈ مینجمنٹ کمپنیاں سرمایہ کار کی ضروریات کے مطابق مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی راہ نمائی کرتی ہیں، جب کہ فنڈز منیجر سرمایہ کار کی رقم کو بطور وکیل کل پانچ شعبوں میں لگاتے ہیں اور اپنی خدمات کا عوض وصول کرتے ہیں:
1۔ اسٹاک ایکسچینج
2۔ اسلامی بینکوں کے منافع بخش اکاؤنٹس
3۔ گورنمنٹ کے صکوک
4۔ پرائیویٹ کمپنیوں کے صکوک
5۔ سونا اور چاندی کی مارکیٹ
مذکورہ بالا پانچوں شعبوں میں سرمایہ کاری کا شرعی حکم یہ ہے کہ اسلامی بینکوں کے منافع بخش اکاؤنٹس، اور صکوک ( خواہ سرکاری اداروں کے ہوں یا نجی) میں سرمایہ کاری کرنا شرعا درست نہیں، اس لیے کہ اس میں ایسے طریقوں اور حیلوں کو استعمال کیا جاتا ہے جنہیں اسلامی کہنا یا سود سے پاک کہنا درست نہیں۔
تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
" مروجہ صکوک میں مندرجہ ذیل خرابیاں موجود ہیں اس لئے ان کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے، اور منافع بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خرابیاں یہ ہیں:
1۔ صکوک خریدنے والے لوگ صرف منافع یا کرایہ وصول پاتے ہیں، نقصان میں حصے دار نہیں ہوتے ، اور یہ شریعت کے خلاف ہے۔
2۔ لگائے گئے سرمائے پر اصل رقم کے حساب سے طے شدہ منافع دیا جاتا ہے، اور یہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔
3۔ شراکت کی مدت کے اختتام پر اثاثہ جات کا تصفیہ نہیں کیا جاتا، بلکہ صکوک جاری کرنے والا صکوک کے اوپر لکھی ہوئی قیمت (Face Value) کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے، یہ شراکت کے تصور کے خلاف ہے۔"
( بعنوان: صکوک کی خرید و فروخت، ٤ / ٣١٥ - ٣١٦، ط: بيت العمار )
اسی طرح سونا چاندی کی منڈی میں سرمایہ کاری کرنا بھی جائز نہیں، کیوں کہ سونا چاندی کی خرید و فروخت کے صحیح ہونےکی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ خرید و فروخت نقد ہو، اور مجلس عقد میں عوضین کا تبادلہ ہوجائے اور عاقدین ان پر قبضہ بھی کرلیں، جبکہ میوچل فنڈز منیجر اس شرط پر عمل نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اس شعبہ میں سرمایۂ کاری جائز نہیں ۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:
"٢٨٠٩ - وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «الذهب بالذهب والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد أو استزاد فقد أربى، الآخذ والمعطي فيه سواء» ". رواه مسلم.
قال زين العرب: الربويات المذكورة في هذا الحديث ست، لكن لا يختص بهما، وإذا ذكرت ليقاس عليها غيرها (لمن زاد)، أي: أعطى الزيادة وقدمه لأن الأمر باختياره أولى (" أو استزاد ") ، أي: طلب الزيادة (" فقد أربى ") ، أي: أوقع نفسه في الربا، وقال التوربشتي - رحمه الله - أي: طلب الربا وتعاطاه ومعنى اللفظ أخذ أكثر مما أعطاه، من ربا الشيء يربو إذا زاد، قال الطيبي - رحمه الله: لعل الوجه أن يقال إلى الفعل المحرم، لأن من اشترى الفضة عشرة مثاقيل بمثقال من ذهب فالمشتري أخذ الزيادة وليس بربا (" الآخذ والمعطي فيه ") ، أي: في أصل إثم الربا (" سواء ") . رواه مسلم) ."
( كتاب البيوع، باب الربا، ٥ / ١٩١٧، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)
الدر المختار شرح تنوير الأبصارمیں ہے:
"باب الصرف ... (هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح."
( كتاب البيوع، باب الصرف، ٥ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)
البتہ پہلا شعبہ یعنی اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا ، میوچل فنڈز کی اس شعبہ میں سرمایہ کاری اگر چہ جائز ہوگی، تاہم شیئرز کے کاروبار کے سلسلے میں جو شرائط بیان کی جاتی ہیں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا۔ان شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1۔ کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہو، سودی کاروبار یا ممنوعہ چیزوں کا کاروبار نہ ہو۔
2۔ کمپنی میں لگی رقم حلال ہو۔
الفقه الإسلامي و ادلتهمیں ہے:
"وأما الموكل فيه (محل الوكالة): فيشترط فيه ما يأتي: ....
أن يكون التصرف مباحاً شرعاً: فلا يجوز التوكيل في فعل محرم شرعاً، كالغصب أو الاعتداء على الغير."
(الوكالة، شروط الوكالة، الموكل فيه، ٤ / ٢٩٩٩، ط: دار الفكر)
3۔ جب تک مشتری کے پاس شیئرز کا قبضہ نہ آئے تب تک اس کوآگے نہ بیچے۔
شیئر مارکیٹ میں شیئر پر قبضہ کے لیے ضروری ہے کہ سی ڈی سی کے اکاؤنٹس میں شیئرز مشتری کے نام منتقل ہو جائیں، قبضہ کے لیے اتنا ہونا ہی کافی ہے۔
جواہر الفتاوی میں ہے:
"مثلاً آدمی جس حصص کو خرید کر بیچنا چاہتا ہے، اس پر شرعی طریقہ پر قابض ہو، اور دوسرے کو تسلیم و حوالہ کرنے پر قادر ہو۔
واضح رہے کہ قبضہ کا حکم ثابت ہونے کے لیے شیئرز کا خرید نے والے کے نام پر رجسٹر یا الاٹ ہونا ضروری ہے، رجسٹر یا الاٹ ہونے سے پہلے زبانی وعدہ یا غیر رجسٹر شدہ حصص کی خرید و فروخت کمی بیشی کے ساتھ جائز نہ ہوگی، کیوں کہ ایسے حصص درحقیقت رسیدیں ہیں، کمپنی کے واقعی حصے نہیں، اس واسطے نفع و نقصان کا مالک صرف رجسٹر شدہ اسامی سمجھے جاتے ہیں، مثلاً ایک شخص نے فی شیئر دس روپے کرکے سو شیئر خریدنے کے لیے کسی سے کہہ دیا، اور یہ بھی کہا ہے کہ ہفتہ بعد پیسے دے کر شیئر وصول کرے گا، تو ایسے حالات میں یہ خرید و فروخت صحیح نہیں ہوئی ۔۔۔ لہذا ایسے شیئر کی کمی بیشی کے ساتھ خرید و فروخت جائز نہیں ہے، حرام ہے، البتہ یہ صحیح ہے کہ پہلے شیئرز رجسٹر ہوجائے، اور قیمت بھی ادا کردی جائے، یا قیمت اب تک ادا کرنا باقی ہے، شیئرز وصول کرلیے ہیں، تو اس صورت میں حصص کو بیچ کر منافع لینا جائز ہے۔"
( ٣ / ٧٢ - ٧٣، ط: اسلامی کتب خانہ)
4۔ شیئرز کی شارٹ سیل (یعنی مشتری کی ملکیت میں شیئر آنے سے پہلے آگے بیچنا) اور فارورڈ سیل ( یعنی بیع کومستقبل کے زمانے کی طرف نسبت کرنا) نہ کی جائے۔
جواہر الفتاوی میں ہے:
"یہ خرید و فروخت دونوں طرف سے ادھار ہے، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيع الكالئ بالكالئ.
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کی بیع ادھار سے منع فرمایا ہے۔
اس واسطے مذکورہ طریقے پر شیئرز کی خرید و فروخت نا جائز ہے۔"
( ٣ / ٧٠، ط: اسلامی کتب خانہ)
5۔ اس کمپنی کے شیئرز کی مارکیٹ ویلیو مائع اثاثوں یعنی نقد کی قیمت سے زیادہ ہو۔
6- حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو، پس جو کمپنی کل منافع کو تمام شیئر ہولڈرز میں تقسیم نہ کرتی ہے، بلکہ منافع میں سے کچھ فیصد مثلاً 20 فیصد مستقبل کے ممکنہ نقصان کے خطرہ کے پیشِ نظر اپنے پاس محفوظ کرلیتی ہو، اور منافع کا بقیہ 80 فیصد شیئر ہولڈرز میں تقسیم کرتی ہو، اس کمپنی کے شیئرز خریدنا جائز نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" أما شركة العقود فأنواع ثلاثة: شركة بالمال، وشركة بالأعمال وكل ذلك على وجهين: مفاوضة وعنان، كذا في الذخيرة. وركنها الإيجاب والقبول وهو أن يقول أحدهما: شاركتك في كذا وكذا ويقول الآخر: قبلت، كذا في الكافي، ويندب الإشهاد عليها، كذا في النهر الفائق. وشرط جواز هذه الشركات كون المعقود عليه عقد الشركة قابلا للوكالة، كذا في المحيط وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع."
( كتاب الشركة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها، الفصل الأول في بيان أنواع الشركة، ٢ / ٣٠١ - ٣٠٢، ط: دار الفكر )
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر میوچل فنڈز مینجمنٹ کمپنی شرائط بالا کا لحاظ کرتی ہو، توسائل کے لیے اس ادارے کے شیئرز کی خرید وفروخت والے حصہ میں سرمایہ کاری کر نے کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
تاہم فی زمانہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کے کاروبار کے لیے بیان کردہ شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، جبکہ شرائط کے ساتھ اسٹاک حصص کے کاروبار کو جائز قرار دینے والے فتاویٰ کو صرف بیانِ جواز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، شرائط کے لحاظ کی کوئی ضمانت یا یقین دہانی نہیں ہوتی،اس لیے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کے جواز کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔
لہٰذا اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز کی خرید و فروخت سے وابستہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاملات میں درج بالا شرائط کی پاسداری کی مکمل یقین دہانی حاصل کرکے پھر حصص کے کاروبار میں سرمایہ کاری کریں۔
2۔ بینک کی منافع بخش کسی اسکیم کو سود سے پاک قرار دینا ممکن نہیں، لہذا بینک کی منافع بخش کسی بھی اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100840
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن