بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ دکھائی کے زیورات کی زکاۃ کس پر ہے؟


سوال

 اہلیہ کو منہ دکھائی میں سونے کے زیور ملے تھے، اس میں سے بعض زیور گھر والوں نے ابھی اہلیہ کے سپرد نہیں کیے تو جو زیور سپرد نہیں کیے، ان کا مالک کون ہوگا  اور اس کی زکوۃ کس پر فرض ہوگی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  منہ  دکھائی  میں اہلیہ کو اگر  زیور حوالہ  کردیے گئے تھے اور اس کو  مالک بنا دیا گیا تھا اور  اس کے بعد اس سے وہ زیورات  لے کر بطورِ  امانت اپنے پاس رکھے تھے تو  ان زیورات کی مالکہ اہلیہ ہی ہے، اور اس کی زکات اہلیہ  ہی کے ذمہ ہوگی   بشرطیکہ وہ صاحبِ نصاب ہو ، یعنی ساڑھے سات تولہ سونے یا اس سے زیادہ کے زیورات ہوں، یا سونے کے ساتھ ضرورت سے زائد کچھ رقم موجود ہو اور مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔

اور اگر وہ زیورات اہلیہ کو دینے تھے  لیکن اسے  دیے نہیں اور  اس کے حوالے  نہیں کیے  ہیں تو   چوں کہ ہبہ قبضہ کے بغیر کامل نہیں ہوتا  ؛ لہٰذا آپ کی اہلیہ اس کی مالک نہیں بنی، اس لیے  زکات اہلیہ کے ذمے  نہیں ہوگی،  اسی طرح اگر آپ کے ہاں کا عرف یہ ہے کہ بیوی کو شادی کے موقع پر زیور پہنائے جاتے ہیں، اور اس موقع پر حوالہ بھی کردیے جاتے ہیں، لیکن مالکانہ حقوق کے ساتھ نہیں دیے جاتے، بلکہ  یہ عرف ہے کہ وہ زیور  بیوی کی ملکیت نہیں ہوتی، تو یہ زیور جس کی ملکیت  ہیں ، اسی پر ان کی  زکات لازم ہوگی۔ 

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (5 / 690):

" ( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل..." الخ

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط؛ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(ج؛ 5/ص؛690/کتاب الھبۃ، ط:  سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں