بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے اوقات میں کوتاہی کرنا


سوال

میں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتا ہوں اور مطلوبہ عرصہ جو کہ پروموشن یا ترقی کے لیے درکار ہے وہ مکمل ہوچکا ہے، اب ادارے کے بالا  اختیار رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو جو ملازمت ملی ہے وہ شفافیت کی بنیاد پر نہیں ہے، اور آپ ملازمت کے حق دار نہیں، جس کی بنیاد پر ہمارا عدلیہ میں کیس جاری ہے، جس میں عدلیہ نے ہمیں اسٹے آرڈر جاری کیا ہے اور ادارے کے ذمہ داروں کو ہمارے بارے میں کوئی نامناسب فیصلہ کرنے سے روکا ہے، جب تک عدلیہ مکمل طور پر تحقیقات کرکے فیصلہ نہ کرے، باوجود اس کے کہ ملازموں کی طرف سے نوکری حاصل کرنے کی تمام ترتیب وقتاً فوقتاً پوری کی جس کے بعد ملازمت کا موقع ملا، اب جب کے ہمارے ساتھ ملازمت حاصل کرنے والے کچھ ملازمین کو ادارے نے پروموشن کر دیا ہے، اس صورت میں سائل چاہتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی کے وقت میں اتنی کمی کرے جتنی تنخواہ کا فرق سائل اور اس کے ساتھ ملازمت حاصل کرنے والے ملازم کا ہے جس کا پروموشن ہو چکا ہے، کیا تنخواہ کے حساب سے اتنی مقدار ڈیوٹی کے اوقات میں کمی کرسکتا ہے؟ یا پھر جتنا عرصہ پروموشن نہ ہونے سے جو حق نہیں ملا وہ ادارے کے اس حساب سے منہا کیا جا سکتا ہے جتنی ڈیوٹی کے اوقات میں کوتاہی واقع ہوچکی، برائے مہربانی مکمل وضاحت کے ساتھ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب تک سائل کی ملازمت برقرار ہے، اس کے لیے ملازمت  کے ان اوقات کی پابندی   کرنا لازم ہوگی جو اس کے اور ادارے کے درمیان طے پائے ہیں، خواہ اس کو ترقی ملے یا نہ ملے، اوقاتِ کار میں کوتاہی کرنے کی صورت میں ان اوقات کی تنخواہ کا وہ حق دار نہیں ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

( كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، مبحث الأجير الخاص، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، ٦ / ٧٠، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404101882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں