بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مضاربت اور شرکت کی شرائط اور وقت سے پہلے معاملہ ختم کرنے کی صورت میں پیشگی اطلاع دینا


سوال

ایمازون  ایک بڑے پیمانہ پر دنیا کا ایک کاروباری سسٹم ہے، ایف بی آر سے رجسٹرڈ  ہے، ساری دنیا اور پاکستان میں اس کی شاخیں ہیں، پھر اس میں مختلف شعبے ہیں، بعض لوگ کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں،  بعض لوگ اپنا پراڈکٹ تیار کرتے ہیں اور رکھتے ہیں اور کوئی پراڈکٹ کی سیل مینی کے طور پر کام کرتا ہے، کوئی اس میں اپنا سرمایہ لگاتا ہے مضاربت ومشارکت کے طور پر، پھر وہ لوگ پرسنٹیج مقرر کرکے آدمی کو نفع دیتے ہیں، اس میں جب کوئی اپنا پیسہ رکھتا ہے تو وہ لوگ ایگریمنٹ پر پیسے لیتے ہیں کہ ہم آپ کو اتنے وقت کے بعد پیسے واپس کریں گے اور اگر آپ اپنا پیسہ اس ایگریمنٹ سے پہلے وصول کرتے ہو تو دو، تین مہینے پہلے  ان کو بتانا ہوگا کہ مجھے پیسے چاہیے، یہ سرمایہ واپس لینے کا رول اور شرائط میں سے ہے تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

سوال میں  ذکر کردہ تفصیل عمومی نوعیت کی ہے، اس میں جو یہ درج ہے کہ   :”کوئی اس میں اپنا سرمایہ لگاتا ہے مضاربت ومشارکت کے طور پر، پھر وہ لوگ پرسنٹیج مقرر کرکے آدمی کو نفع دیتے ہیں“، اس میں یہ واضح نہیں کہ وہ سرمایہ کس کے پاس لگارہا ہے، کسی خاص فرد سے معاملہ ہے یا کمپنی سے ؟ حتمی طور پر مضاربت ہے یا مشارکت؟ کاروبار کیا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ اور نفع  ونقصان کی تقسیم کا طریقہ کار کیا ہے؟، لہذا  جب تک حتمی طور کوئی متعینہ صورت واضح نہیں ہوتی ، خاص اس مسئلہ کا حکم  نہیں بتایا جاسکتا، البتہ اصولی طور پر مضاربت اور شرکت کی شرائط درج ذیل ہیں:

مضاربت اور اس کی شرائط:

 کاروبار میں اگر   ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے شخص  کی محنت ہو   تو شرعًا ایسا معاملہ  "مضاربت" کہلاتا ہے، شرعاً یہ معاملہ جائز ہے،البتہ اس کے لیے درج چند شرائط  کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا:

  1. کاروبار جائز اور حلال ہو۔
  2. مضاربت میں سرمایہ کا نقد ہونا ضروری ہے، اگر سرمایہ سامان، قرض یا جامد اثاثوں کی شکل میں ہوگا تو مضاربت صحیح نہیں ہوگی۔
  3. سرمایہ کا اس طور پر معلوم ہونا ضروری ہے کہ بعد میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، یعنی  سرمایہ لگانے والا، محنت کرنے والے کو سرمایہ پر قبضہ کرادے  یا اس کی طرف اشارہ کردے۔
  4. سرمایہ مکمل طور پر مضارب (کام کرنے والے ) کے حوالہ کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ پھر اس سرمایہ میں رب المال (سرمایہ کار)  کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ رہے، اسی طرح رب المال پر کام کرنے کی شرط بھی نہ   لگائی جائے ورنہ   معاملہ فاسدہو جائے گی۔
  5.  منافع، حاصل ہونے والے حقیقی نفع  میں سے فیصد کے اعتبار سے طے ہو، مثلا نفع میں سے  سرمایہ لگانے والا  کا   ٪ 40  فیصد اورکام کرنے والے  کا ٪60  فیصد وغیرہ۔
  6.  نفع اصل سرمایہ  کے فیصد کے اعتبار سے طے نہ کیا جائے ، بلکہ نفع میں سے نفع کا فیصد مقرر کیا جائے۔
  7.  کسی ایک فریق کے لیے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط نہ لگائی   جائے۔
  8.   مضاربت میں  نقصان ہو تو  اس کا حکم یہ   ہے کہ  اس کو پہلے  نفع میں سے پورا کیا جائے گا، اگر نقصان  پورا ہونے کے بعد بھی کچھ نفع باقی رہتاہے  تو نفع کا جو تناسب باہمی رضامندی سے طے ہوا ہو ، اسی اعتبار سے بقیہ نفع تقسیم کیا جائے گا، اور اگر کل نفع خسارے میں چلا گیا تو مضارب (محنت کرنے والے  شخص) کو کچھ نہیں ملے گا، اور انویسٹر کو بھی نفع نہیں ملے گا، اور اگر نفع کے ساتھ ساتھ سرمائے میں سے بھی کچھ رقم یا کل رقم ڈوب گئی تو رب المال (سرمایہ دار) کو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، بشرط یہ کہ مضارب(ورکنگ پارٹنر)  کی طرف سے تعدی  اور کوتاہی ثابت نہ ہو۔

شرکت اور اس کی شرائط:

اگر دو  یا زیادہ لوگ سرمایہ ملاکر کوئی کاروبار کریں   خواہ دونوں فریقین سرمایہ کے ساتھ  محنت بھی کریں یا ایک  محنت صرف ایک فریق کی ہو اور سرمایہ سب کا ہو تو ایسی صورت میں یہ ”شرکت“ کا معاملہ ہے، اس کے  جائز ہونے کے لیے درج ذیل چیزوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوگا:

  1. کاربار جائز اور حلال ہو۔
  2.  نفع اصل سرمایہ  کے فیصد کے اعتبار سے طے نہ کیا جائے،    بلکہ حاصل ہونے والے نفع کے فیصد کے اعتبار سے مقرر کیا جائے۔
  3. اگر  شراکت دار وں کے  سرمایہ کے تناسب سے، نفع  کو   فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے تو  یہ  بھی جائز ہے، مثلاً انویسٹر کا سرمایہ  کمپنی کے کل  سرمایہ کو ٪5 فیصد ہے، تو   مذکورہ کاروبار سے حاصل ہونے والے کل نفع سے اس کا پانچ فیصد مقرر کیا جاسکتا ہے۔
  4.  کسی ایک فریق کے لیے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط نہ لگائی    جائے۔
  5.  انویسٹر کو  کاروبار میں شریک کرتے وقت پہلے سے موجود کاروبار کے اثاثہ جات  کا مکمل حساب کیا جائے،  پھر نئے  آنے والے انویسٹر کو   اس کے سرمایہ کے حساب سے شریک کیا جائے، اگر کاروبار میں کچھ سامان بھی موجود ہو   تو اس میں سے کچھ سامان انویسٹر کو  اس کی کچھ رقم کے بدلے میں بیچ دیا جائے  اور اس کو قبضہ دے کر پھر دوبارہ ملالیا جائے؛ تاکہ ہر شریک کا نقد اور سامان دونوں میں حصہ ہوجائے۔
  6.  نقصان کی صورت میں  پر شریک  ہر اس کے سرمایہ  کے تناسب سے نقصان کی ذمہ داری عائد ہوگی۔

لہذا مذکورہ بالا شرائط کے مطابق اگر  مضاربت یا شرکت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی جائے تو یہ جائز ہوگا، اور اس صورت میں اگر فریقین باہمی رضامندی سے کوئی وقت مقرر کرلیں اور بھی طے کرلیں کہ اگر وقت سے پہلے  معاملہ ختم کرنا ہو تو  دو  ، تین پہلے اطلاع کرنا ضروری ہے تو یہ جائز ہے۔

فتاوی  ہندیہ  میں ہے: 

"وأما شرائطها الصحيحة فكثيرة كذا في النهاية. (منها) أن يكون  رأس المال دراهم أو دنانير عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وعند محمد - رحمه الله تعالى - أو فلوسا رائجة ...  (ومنها) أن يكون رأس المال معلوما عند العقد حتى لا يقعان في المنازعة في الثاني والعلم به إما بالتسمية أو بالإشارة ... (ومنها) أن يكون رأس المال عينا لا دينا فالمضاربة بالديون لا تجوز...  (ومنها) أن يكون المال مسلما إلى المضارب لا يد لرب المال فيه فإن شرطا أن يعمل رب المال مع المضارب تفسد المضاربة... (ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط...(ومنها) أن يكون المشروط للمضارب مشروطا من الربح لا من رأس المال."

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسير المضاربة، 4 / 285، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين".

( كتاب المضاربة، 5 / 656، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"منها: (شرائط جواز الشركة) أن يكون الربح معلوم القدر ... وأن يكون جزءً شائعًا في الجملة لا معينًا ... أما الشركة بالأموال فلها شروط، منها أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة ... وهي الدراهم والدنانير عنانًا كانت الشركة أو مفاوضة ... ولو كان من أحدهما دراهم ومن الآخر عروض فالحيلة في جوازه أن يبيع كل واحد منها نصف ماله بنصف دراهم صاحبه ويتقابضا ويخلطا جميعًا حتى تصير الدراهم بينهما والعروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز".

(كتاب الشركة، 6/59، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه...وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الشركة،الباب الثالث في شركة العنان،الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال، 2/ 320، ط:رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601101211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں