راشد لیپ ٹاپ کا کاروبار گزشتہ 10سال سے کر رہا ہے، اس نے ایک دکان کرایہ پر لی، جس کا 3لاکھ ایڈوانس دیا تھا، لیکن باقی پیسوں میں مشکلات کا سامنا تھا، تو اس نے اپنے ایک دوست عمر کو کاروبار میں ساتھ ملا لیا ، اور اُس کے ساتھ یہ معاملہ طے پایا کہ اِس دکان کی انویسمنٹ (سرمایہ) ساری عمر ہی دے گا، لہذا جو ایڈوانس راشد کی طرف سے ادا کیا گیا تھا وہ بھی عمر نے اُسے ادا کردیا ہے، راشد نے عمر سے معاملہ طے کرتے وقت مضاربت کی بنیاد پر معاملہ طے کیا تھا اورنفع میں دونوں کا آدھا آدھاحصہ طے ہے، لیکن نقصان کے حوالہ سے کچھ طے نہیں ہوا، معاملہ میں یہ بھی طے پایا تھا کہ عمر راشد کے ساتھ کاروبار کو وقت بھی دے گا لہذا وہ دکان پر آتا ہےاور کاروبار کو وقت دیتا ہے، عمر کو لیپ ٹاپ کے کاروبار کا تجربہ نہیں ہے، راشد جو بھی کرتا ہے عمر کو بتا کر کرتا ہے اور اس کے علم میں لاکر ساری چیزیں ترتیب دیتا ہے۔ کاروبار شروع کیے ہوئے تقریباً دو ہفتے ہوئے ہیں، دکان میں فرنیچر وغیرہ کےسارے اخراجات عمر نے کیے ہیں، مارکیٹ سے مال لیا گیا تو اُس میں کچھ مال نقد اور کچھ اُدھار ہے، نقد مال کی ادائیگی عمر نے کی ہے۔ غرض راشد کا اِس دکان اور اِس میں جاری کاروبار میں کسی قسم کا سرمایہ شامل نہیں ہے۔اُس کے اپنے کاروبار کی الگ دُکان ہے، اِس دکان میں فقط اپنے تجربہ کی بنیاد پر کام کرکے نفع میں شریک ہے۔
نوٹ:دونوں شرکاء اِس معاملہ کو شریعت کے مطابق اِس طور پر جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ دونوں ہی نفع نقصان میں شریک ہوں۔
(1)اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کاروبار کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور نقصان کی صورت میں کیا ہوگا؟راشد نقصان میں ذمہ دار ہوگا؟اگر نہیں تو نقصان میں شامل کرنے کی کیا صورت ہے؟
(2)راشد کی مارکیٹ میں گڈ ول اچھی ہے، جس کی بنیاد پر راشد کو مارکیٹ سے ادھار بھی مل جاتا ہے،اور ابھی بھی30 سے 40 لاکھ کا مال ادھار پر لیا ہوا ہے، تو کیا راشد کے ذریعہ مارکیٹ سے حاصل ہونے والے اِس ادھار مال کو اُس کی انویسمنٹ (سرمایہ) سمجھ کر راشد کو نقصان میں بھی برابر کا شریک کیا جاسکتا ہے؟
(3)کل کو عمر یہ کاروبا چھوڑتا ہے تو اس کو اس کی انویسمنٹ موجود نفع کے ہمراہ واپس کردی جائے گی، اس کے علاوہ کچھ اور تو نہیں دیا جائے گا؟ یا راشد کاروبار چھوڑتا ہے تو اس کا کیا معاملہ ہوگا؟
(4)اگر راشد کی موت واقع ہوجاتی ہے تو اس صورت میں کیا ہوگا؟اور اگر عمر کی وفات ہوجاتی ہے توپھرکیا معاملہ ہوگا؟اگر عمر راشد کے ورثاء میں سے کسی کے ساتھ کاروبار نہ کرنا چاہےتو اس کو اس کا سرمایہ واپس کردیا جائے گا؟یا کاروبار سارا عمر کے حوالے کردیا جائے گا؟ اور اگر کاروبار کو ورثاء کے ساتھ کرنا چاہے تو کیا اس کو جاری رکھیں گے؟
واضح رہے کہ اگر ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہو شرعًا ایسا معاملہ "مضاربت" کہلاتا ہے، مضاربت کے درست ہونے کی منجملہ شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاہدہ کرتے وقت ’’رب المال‘‘ (یعنی پیسہ لگانے والا انویسٹر) پر عمل کرنے کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ عمل صرف ’’مضارب ‘‘ کی ذمہ داری قرار دی جائے، اگر مضاربت کا معاہدہ کرتے وقت ’’رب المال‘‘ کے لیے بھی عمل کرنے کی شرط لگائی جائے تو اس سے مضاربت کا معاملہ فاسد ہوجائے گا۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں راشد اور عمر کے درمیان ہونے والی شراکت داری میں انویسٹرعمر (رب المال)کو بطورِ ورکنگ پارٹنر کاروبار میں عملاً شریک بنانے سے یہ مضاربت فاسد ہوچکی ہے،اب تک جو کچھ نفع نقصان ہوا وہ رب المال (عمر) کا ہوگا، اور مضارب (راشد) کو اب تک جتنا کام کاج اور بھاگ دوڑ کی ہے اُس کے عوض اجرتِ مثل (اس جیسے کام پر جتنی اجرت دینے کا رواج ہے) ملے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرعا (عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب.
وفي الرد: (قوله من جانب المضارب) قيد به؛ لأنه لو اشترط رب المال أن يعمل مع المضارب فسدت."
(كتاب المضاربة، ج:5، ص:645، ط:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) حكم المضاربة الفاسدة، فليس للمضارب أن يعمل شيئا مما ذكرنا أن له أن يعمل في المضاربة الصحيحة، ولا يثبت بها شيء مما ذكرنا عن أحكام المضاربة الصحيحة، ولا يستحق النفقة، ولا الربح المسمى، وإنما له أجر مثل عمله، سواء كان في المضاربة ربح أو لم يكن؛ لأن المضاربة الفاسدة في معنى الإجارة الفاسدة، والأجير لا يستحق النفقة ولا المسمى في الإجارة الفاسدة، وإنما يستحق أجر المثل، والربح كله يكون لرب المال؛ لأن الربح نماء ملكه، وإنما يستحق المضارب شطرا منه بالشرط، ولم يصح الشرط فكان كله لرب المال، والخسران عليه."
(كتاب المضاربة،فصل في بيان حكم المضاربة، ج:6، ص:108، ط:دارالكتب العلمية)
فریقین پر اِس معاملہ کوختم کرنا تو لازمی ہے، تاہم اگر وہ اِس کے بعد باہمی طور پرشرکت کا معاملہ کریں تو اِس صورت میں دونوں شراکت دار نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔اب اِس کی عملی صورت یہ ہے کہ عمر نے اِس کاروبار میں اب تک جتنی سرمایہ کاری کی ہے اُس کا حساب کتاب کرلیا جائے، اور پھر راشد دُکان میں موجود مخصوص سامان (مثلاً لیپ ٹاپ وغیرہ) مخصوص و مقررہ قیمت کے عوض عمر سے خرید لے، اور پھر اُس سامان کو لے کر عمر کےساتھ کاروبار میں شامل ہوجائے، دونوں شریک نفع میں اپنے اپنے سرمایہ کے تناسب سے شریک ہوں گے، اسی طرح نقصان بھی اپنے سرمایہ کے تناسب سے برداشت کریں گے۔ واضح رہےکہ مذکورہ طریقہ سے ہی راشدکی عمر کے ساتھ نفع نقصان والی شراکت داری قائم ہوسکتی ہے، اور اگر راشد عمر کو پیسہ وغیرہ دے کر اِس چلتے ہوئے کاروبار میں شراکت دار بننا چاہے تو یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو كان من أحدهما دراهم، ومن الآخر عروض، فالحيلة في جوازه: أن يبيع صاحب العروض نصف عرضه بنصف دراهم صاحبه، ويتقابضا، ويخلطا جميعا حتى تصير الدراهم بينهما، والعروض بينهما، ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز".
وفيه ايضاً :
"(أما) الشركة بالأموال فلها شروط: (ومنها) : أن يكون رأس مال الشركة عينا حاضرا لا دينا، ولا مالا غائبا، فإن كان لا تجوز عنانا، كانت أو مفاوضة؛ لأن المقصود من الشركة الربح وذلك بواسطة التصرف، ولا يمكن في الدين ولا المال الغائب، فلا يحصل المقصود وإنما يشترط الحضور عند الشراء لا عند العقد".
(کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج : 6، ص : 59/60، ط : دار الكتب العلمِية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو كان مع أحدهما متاع ومع الآخر مال وأراد أن يشتركا في ذلك كانت هذه الشركة بالعروض وإنها لا تجوز قال الخصاف - رحمه الله تعالى - الحيلة في ذلك أن يبيع صاحب المتاع من صاحب المال بنصف المال فيصير المال والمتاع بينهما نصفين، ثم يتعاقدان عقد الشركة على ما يريدان وهذه حيلة واضحة ذكرها محمد في شركة الأصل قال شمس الأئمة الحلواني - رحمه الله تعالى - قول الخصاف - رحمه الله تعالى -، ثم يتعاقدان عقد الشركة على ما يريدان يستقيم في حق النقد فإن التفاضل في الربح في النقد يجوز، وأما إذا كان رأس المال عروضا لا يجوز شرط التفاضل في الربح ويكون الربح بينهما على قدر رأس المال فيحمل على أن الخصاف - رحمه الله تعالى - أراد بما قال في حصة النقد دون المتاع."
(كتاب الحيل،الفصل الثاني عشر في الشركة، ج:6، ص:405، ط:دارالفكر)
(1) ازروئے شرع یہ کاروبار فی الحال مضاربت فاسدہ ہے ، جیسا کہ اوپر ذکر کردیا گیا کہ اِسے ختم کر کے از سر نو صحیح و درست معاملہ کرنا فریقین کے ذمہ لازم ہے،فی الحال راشد نفع نقصان دونوں میں شریک نہیں ہے، بلکہ وہ فقط اُجرت مثل کا حق دار ہے۔ البتہ یہ معاملہ ختم کرنے کے بعد مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق شراکت داری کی گئی تو راشد اپنے سرمایہ کے حساب سے نقصان میں بھی شریک ہوگا۔
(2)نہیں۔
(3) اِس مضاربت کے معاملہ کی تفصیل ذکر کردی گئی، البتہ از سرِ نو شرکت کا معاملہ کرنے کے بعد اگر کسی وقت دونوں شریک کاروبار علیحدہ کرنا چاہیں تو ہر ایک مجموعی کاروباری سرمایہ کے تناسب سےاپنے سرمایہ اور مقررہ نفع، یا (نقصان کی صورت میں) نقصان بمع بقیہ سرمایہ کا حق دار ہوگا۔
(4)مضاربت فاسدہ کے اِس معاملہ کے دوران اگر عمر انتقال کرجائے تو تمام کاروبار بمع نفع نقصان کے حق دار اُس کے ورثاء ہوں گے، اور راشد کو اُجرت مثل ملے گی۔ اور اگر راشد انتقال کرجائے تو راشد کے ورثاء کو اُجرت مثل ادا کرنا عمر پر لازم ہوگا، باقی کاروبار بمع نفع ونقصان کا مالک عمر ہی رہے گا۔ اور اگر از سرِ نو معاملہ کر کے شریعت کے مطابق شراکت داری قائم کریں تو عمر و راشد کسی بھی شریک کے انتقال کی صورت میں یہ شراکت داری فوراً ختم ہوجائے گی، مرحوم کے ورثاء اِس کاروبار میں اُس کے سرمایہ اور نفع وغیرہ کے حق دار ہوں گے، راشد اور عمر میں سے جو زندہ ہوگا اُس پر مرحوم شریک کے ورثاء کا یہ حق و حصہ اُن کے حوالہ کرنا ضروری ہوگا۔البتہ اگر فریقین ( مرحوم شریک کےشرعی ورثاء اور موجودہ شریکین میں سے جو زندہ ہو) باہمی رضامندی سے یہ مشترکہ کاروبار جاری رکھنا چاہیں تو از سرِ نو معاہدہ کرکے شراکت داری قائم کرسکتے ہیں، اور اگر بعض شرکاء کاروبار جاری رکھنا چاہیں اور بعض اپنے حق کا مطالبہ کریں تو اُن مطالبہ کرنے والوں کو اُن کاشرعی حصہ ادا کیا جائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما."
(كتاب الشركة،الباب الثالث،الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال، ج:2، ص:320، ط:دارالفكر)
دررالحکام شرح مجلۃ میں ہے:
"تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين أو بإنكاره الشركة أو بقول أحدهما للآخر لا أعمل معك فإنه بمنزلة فاسختك وتنفسخ ولو كان مال الشركة موجودا في حالة العروض."
(الكتاب العاشر الشركات،الباب السادس، الفصل الرابع في بعض الضوابط المتعلقة بعقد الشركة، ج:3، ص:370، ط:دارالجيل)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتبطل الشركة) أي شركة العقد (بموت أحدهما) علم الآخر أو لا لأنه عزل حكمي.
وفي الرد:(قوله: بموت أحدهما) ؛ لأنها تتضمن الوكالة أي شرط لها ابتداء وبقاء؛ لأنه لا يتحقق ابتداؤها إلا بولاية التصرف لكل منهما في مال الآخر، ولا تبقى الولاية إلا ببقاء الوكالة، وبه اندفع ما قيل الوكالة تثبت تبعا، ولا يلزم من بطلان التبع بطلان الأصل فتح."
(كتاب الشركة،ج:4، ص:327، ط:سعيد)
فقط والله علم
فتوی نمبر : 144605101113
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن