بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت کا راس المال ڈالر میں ہو اور رب المال ڈالر ہی میں راس المال اور نفع واپس لینے کی شرط لگائے جب کہ کاروبارپاکستانی روپیہ میں کیا گیا ہو


سوال

ہمارے ایک دوست جو سعودی عرب میں ہوتے ہیں انہوں نے مضاربت کے لیے ہمیں پیسے بھیجے، انہوں نے یہ شرط لگائی کہ میں ڈالر کی صورت میں رقم بھیجوں گا، آپ کاروبار چاہے ڈالر میں کرو یا روپےمیں ، لیکن نفع اور کاروبار کے اختتام پر میرا سرمایہ مجھے ڈالر ہی کی شکل میں واپس چاہیے، پھر انہوں نے 50 ہزار ڈالر بھیجے، اس وقت یہ پاکستانی تقریباً 55 لاکھ روپے بنتے تھے، ہم نے یہاں کاروبار شروع کیا، سال کے اختتام پر جب حساب کیا تو پچاس ہزار ڈالر پورے کرنے میں ہمارا دونوں طرف کا نفع پورا ہو گیا اور یہاں جو محنت کی تھی اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا، پھر اگلے سال بھی اسی طرح ہوا کہ دونوں طرف کا نفع پچاس ہزار ڈالر پورا کرنے میں صرف ہوگیا، اس کے بعد ہم نے کہا کہ ڈالر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس کاروبار کو یہیں پر ختم کر لیتے ہیں، پھر ہم نے کاروبار ختم کرنے کے لیے مال جس کو دیا اس نے یک مشت پیسے نہیں دیے، بہر حال ہم  نے کاروبار ختم کیا اور حساب کر کے ان کو بتایا کہ مجموعی طور پر 81 لاکھ روپے آپ کے ہماری طرف نکلتے ہیں اور یہ پیسے ہم آپ کو چھ یا سات ماہ میں دے دیں گے، انہوں نے بھی اس وقت یہ نہیں کہا کہ نہیں پچاس ہزار ڈالر پورے کرنے ہیں، بس 81 لاکھ روپے کی بات ہوئی،  پھر ہم وقفہ وقفہ سے انہیں رقم بھیجتے رہے، آخری بار جب رقم بھجی تو اس وقت ان کے ڈالر کے حساب سے 12500 ڈالر اور روپیہ کے حساب سے 1737500 روپے باقی تھے، اب جب ہم نے یہ رقم یعنی 1737500 روپے بھیجنی چاہی تو انہوں نے کہا کہ یہ رقم اب تقریباً 9500 ڈالر بنتی ہے، اور اب بھی 3000 ڈالر کا فرق آ رہا ہے، آپ 81 لاکھ روپے تو پورے کر رہے ہو لیکن  81 لاکھ روپے  سے  میرے 50 ہزار ڈالر پورے نہیں ہو رہے، لہذا آپ کو یہ 3000 ڈالر بھی پورے کرنے ہوں گے۔

اب فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ شرعی طور پر اگر حق بنتا ہے تو یہ رقم ہم ادا کریں گے۔

ہم نے جب کاروبار شروع کیا تو ڈالر تقریباً 115 روپے کا تھا اور پھر 180 سے بھی اوپر چلا گیا، اور ہماری محنت ضائع ہوئی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب فریقین نے اس شرط کے ساتھ مضاربت  کی تھی کہ رب المال کا سرمایہ ڈالر کی شکل میں ہوگا  تو سائل یعنی مضارب پر لازم تھا کہ کاروبار کے اختتام پر رب المال کا سرمایہ ڈالر کی شکل میں اسے واپس کرے ، اگرچہ سرمایہ کے 50ہزار ڈالر پورے کرنے کے بعد دونوں  کے لیے نفع کا کچھ حصہ  باقی نہ رہے، لیکن جب دو سال کے بعد مضارب  نے مضاربت ختم  کردی اور رب المال کو یہ بتا دیا کہ موجودہ مال 81 لاکھ روپے میں فروخت ہوا ہے  اور یہ رقم ڈالر کی صورت میں  آپ کو   چھ سے سات ماہ میں ادا کر دی جائے گی، اس کے  بعد ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے 81 لاکھ روپے سے 50 ہزار   ڈالر پورے نہیں ہوئے تو مضارب پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس سے مزید رقم دے کر 50 ہزار ڈالر پورے کرے، بلکہ کاروبار کے اختتام پر جتنا سرمایہ موجود تھا ،اس کی مالیت 81  لاکھ روپے بنتی  تھی تو 81 لاکھ کے بقدر ڈالر ادا کرنے سے  مضارب کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی ۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو كانت صحيحة فلم يربح المضارب لا شيء له".

(كتاب المضاربة،الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، 4/ 288، ط:رشيدية)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(قوله: وما هلك من مال المضاربة فهو من الربح دون رأس المال) لأن الربح تبع لرأس المال وصرف الهلاك إلى ما هو التبع أولى كما يصرف الهلاك إلى العفو في الزكاة. (قوله: وإن زاد الهالك على الربح فلا ضمان على المضارب) ؛ لأن مال المضاربة مقبوض على وجه الأمانة فصار كالوديعة".

(كتاب المضاربة، 1/ 296، ط: المطبعة الخيرية)

امام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ کی کتاب الاصل میں ہے:

"وإذا مات المضارب ومال المضاربة في يديه، وعليه دين...وكذلك (3) لو كان الذي (4) في يديه دنانير والمضاربة دراهم باع الوصي الدنانير، فأعطى رب المال رأس ماله وحصته من الربح، وقسم حصة المضارب بين غرمائه، فإن أراد رب المال أن يأخذ من الدنانير بقدر رأس ماله وحصته من الربح فأعطاه الوصي فذلك جائز".

(‌‌كتاب المضاربة،‌‌باب إقرار المضارب بالمضاربة فى الصحة والمرض،4/ 281، ط:دار ابن حزم)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144305100795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں