ہم تین دوست زید ، بکر اور عمرو کاروبار کرتے ہیں، ہوتا یوں ہے کہ عمرو پیسے دیتا ہے،ہم گاڑی خریدتے ہیں،اور بیچ دیتے ہیں،منافع ہم تینوں آپس میں اس طور پر تقسیم کرتے ہیں کہ 50 فیصد منافع عمرو کا ہوتا ہے،کیوں کہ سرمایہ اس کا لگا ہوتاہے،اور باقی کا 50فیصد، میں اور بکر آپس میں تقسیم کرتے ہیں، اس دوران میں نے ایک گاڑی عمرو کے پیسوں سے خریدی،جس کی مالیت 9800000 روپے تھی،لیکن کووڈ کی وجہ سے گاڑی فروخت ہونے میں وقت لگا،اور پہلی آفر جب آئی تو اصل قیمت سے آٹھ ،دس لاکھ روپے کم آئی، عمرو نے نقصان کے اندیشے کے سبب مجھ سے 263000 روپے کا چیک بطورِ ضمانت رکھ لیا،لیکن تب گاڑی فروخت نہیں ہوئی،اور اب میں نے وہ گاڑی 9500000 روپے میں فروخت کی،یعنی تین لاکھ کا نقصان ہوا ہمیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ جو نقصان ہوا، وہ ہم سب پر آئے گا، یا صرف مجھ پر،اگر سب پر آئے گا تو اس میں مجھے کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا؟
واضح رهے كه كاروبار كي مذكوره صورت شرعاً مضاربت كهلاتی هے، اور مضاربت کااصول یہ ہے کہ اس ميں حاصل ہونے والا نفع سرمایہ کاراور عامل یعنی محنت کرنے والے کے درمیان نفع میں سے طے شدہ فيصد كے تناسب سے تقسیم ہوتا ہے، اور نقصان سے متعلق اصول يه هے كه وه نفع سے پورا كيا جاتاہے، ليكن اگر نقصان نفع سے تجاوز كرجائے اور اصل مال ميں خساره هوجائے تو اس صورت ميں مزيد نقصان صرف سرمايه كار برداشت كرے گا، مضارب (محنت كرنے والے) کا نقصان یہ ہے کہ اس كي محنت رائيگاں چلي جائے گي۔
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل مذکورہ نقصان ادا نہیں کرے گا، بلکہ سارا کا سارا نقصان سرمایہ کار (عمرو) برداشت کرے گا۔ سائل کی صرف محنت رائیگاں جائے گی۔
الدر مع الرد ميں هے:
"وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) و لو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين."
(كتاب المضاربة،باب المضارب يضارب،ج5،ص656،ط:سعيد)
مجلة الاحكام العدلية ميں هے:
"إذا تلف مقدار من مال المضاربة فيحسب في بادئ الأمر من الربح ولا يسري إلى رأس المال، و إذا تجاوز مقدار الربح و سرى إلى رأس المال فلايضمنه المضارب سواء كانت المضاربة صحيحة أو فاسدة."
(الباب السابع في حق المضاربة، الفصل الثاني في بيان شروط المضاربة، المادة1427، ص275،ط:نور محمد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100478
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن