اگر پارٹنرشپ میں کام کریں، دکان ہماری ہو اور انویسٹمنٹ دوسرے پارٹنر کی ہو ،جو 50،50 نکالیں گے اس کی سمجھ نہیں آرہی ہے،راہ نمائی فرمائیں۔
دو شخصوں کے درمیان ایسا معاہدہ جس میں ایک جانب سے سرمایہ اور دوسری جانب سے محنت ہو اور پھرحاصل ہونے والا نفع دونوں کے ما بین شرح فیصد کے اعتبار سے حسبِ معاہدہ تقسیم کیا جاتا ہو توایسے عقد کو مضاربت کہا جاتا ہے۔
مضاربت کے بنیادی اصول وشرائط درج ذیل ہیں:
(1) مضاربت میں سرمایہ کا نقدی ہونا ضروری ہے، اگر سرمایہ سامان، قرض یا جامد اثاثوں کی شکل میں ہوگا تو مضاربت صحیح نہیں ہوگی۔
(2) عقدِ مضاربت کے وقت سرمایہ کا اس طور پر معلوم ہونا ضروری ہے کہ بعد میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، یعنی رب المال مضارب کو سرمایہ پر قبضہ کرادے یا اس کی طرف اشارہ کردے۔
(3) عقدِ مضاربت میں سرمایہ مکمل طور پر مضارب کے حوالہ کرنا ضروری ہے، اس طور پر کہ پھر اس سرمایہ میں رب المال کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہ رہے، اسی طرح رب المال کوئی کام بھی نہیں کرے گا، بلکہ کا م صرف مضارب ہی کرے گا، اگر رب المال پر بھی کام کی شرط لگائی گئی تو مضاربت فاسدہو جائے گی۔
(4) عقدِ مضاربت میں منافع کی تقسیم حقیقی نفع کے تناسب سے طے کی جانی ضروری ہے، اگر کسی ایک کے لیے معین رقم یا سرمایہ کے تناسب سے پہلے سے نفع طے کرلیا (یعنی کل سرمایہ کا اتنا فیصد ملے گا) تو مضاربت جائز نہیں ہوگی۔
(5) مضارب کو صرف حاصل شدہ نفع میں سے ہی حصہ ملے گا، اصل سرمایہ میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا۔
(6) اگر مضارب کے لیے اصل سرمایہ میں سے کچھ مشروط کیا گیا تو مضاربت فاسد ہو جائے گی۔
(7) اگر نقصان ہوگیا تواس کو پہلے حاصل شدہ نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر اس سے بڑھ گیا تو وہ رب المال کے ذمہ ہوگا اور اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا، مضارب کو نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں، بلکہ نقصان کی صورت میں سرمایہ کار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب کی محنت رائیگاں جائے گی، مضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا۔ہاں البتہ اگر اس نقصان میں مضارب(محنت کنندہ) کا دخل ہو،یعنی مضارب کی غفلت اور تعدی کی وجہ سے نقصان ہوا ہو تو اس نقصان کی ذمہ داری مضارب پر عائد ہوگی۔
(8 ) مضاربہ میں سرمایہ اور کاروبار حلال ہو، معاملہ میں کوئی شرطِ فاسد نہ ہو۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی دکان ( یعنی محنت ) اور دوسرے کی انویسٹمنٹ ہےاور نفع میں دونو ں 50،50 فیصد کے حساب سے شریک ہوں تو یہ عقد مضاربت ہے اور عقد مضاربت میں فیصد کے اعتبار سے جو نفع طے ہوجائے ہر ایک اسی کا حق دار ہوتا ہے،کسی کے لیے مخصوص رقم مقرر کرلینا جائز نہیں ہوتا، البتہ اگر دونوں باہمی رضامندی سے کسی ایک کے لیے شرح فیصد کے اعتبار سے نفع زیادہ رکھ لیتا ہے تو یہ جائز ہے۔
نوٹ:سوال کا مقصد اگر کچھ اور ہو تو اسے واضح کرکے جواب دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر."
(كتاب المضاربة،الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:285، ط:دارالفكر)
وفيه أيضا:
"(وأما الشروط) الفاسدة فمنها ما تبطل المضاربة ومنها ما لا تبطلها بنفسها إذا قال رب المال للمضارب لك ثلث الربح وعشرة دراهم في كل شهر عملت فيه للمضاربة فالمضاربة جائزة والشرط باطل كذا في النهاية."
(كتاب المضاربة،الباب الأول في تفسيرها وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:287، ط:دارالفكر)
شرح مختصر الطحاوی میں ہے:
"(ولا تجوز المضاربة على أن لأحدهما دراهم معلومة)."
( كتاب المضاربة، ج:3، ص:367، ط: دار البشائر الإسلامية)
فتاوی شامی میں ہے:
"ومن شروطها: كون نصيب المضارب من الربح حتى لو شرط له من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت."
( كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط: سعيد)
وفيه أيضاً:
"(ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر.
(قوله فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد تأمل. (قوله؛ لأنه لا يعمل إلخ) فإن قيل: عدم استحقاقه للأجر على فعل نفسه لا يستلزم عدمه بالنسبة إلى ما وقع لغيره".
(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص:60، ط:ایچ ایم سعید)
و فيه أيضاً:
"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت".
(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)
مجمع الضمانات میں ہے:
"ثم المدفوع إلى المضارب أمانة في يده لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه لا على وجه البدل والوثيقة، وهو وكيل فيه لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه فإذا ربح فهو شريك فيه، وإذا فسدت ظهرت الإجارة حتى استوجب العامل أجر مثله، وإذا خالف كان غاصبا لوجود التعدي منه على مال غيره".
(باب في مسائل المضاربة،الفصل الأول في المضاربة،ص: 303،ط:دار اکتب الإسلامی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511101648
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن