بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں فیصد کے اعتبار سے منافع لینے کا حکم


سوال

 میں  ایک میڈیسن کی دوکان والے کے ساتھ شراکت کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ،جس کو کاروبار کے لیے پیسے کی ضرورت ہے اور حال ہی میں ایک شخص نے15 لاکھ کی شراکت ان کے کاروبار میں کی ہے، جس کے عوض یہ ایک مخصوص رقم ہر مہینے شراکت دار کو ادا کرتے ہیں، میری قلیل معلومات کے مطابق متعین شدہ رقم سود کے ضمن میں آتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس دوکان دار سے بات کر کے ان کا یہ معاہدہ جو سود پر مبنی ہے ختم کرا کر خود اس میں شراکت کروں اور شراکت اس ترتیب سے ہو کہ جو رقم میں کاروبار میں لگا رہا ہوں اس پر جتنا بھی منافع ہو تو اس کی 50 فیصد شرح میں لوں، جب کہ 50 فیصد شرح جن کا کاروبار ہے ان کو دوں، کیوں کہ دوکان کے اخراجات کے علاوہ ادویات کو فروخت کرنا بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے، جب کہ میں دوکان میں بیٹھنے کی خواہش بھی رکھتا ہوں، اس بارے میں شریعت کیا کہتی  ہے؟برائے مہربانی مطلع فرمائیں۔

جواب

 واضح  رہے  کہ ایک شخص کی رقم اور دوسرے کی محنت کی بنیاد پر کی جانے والی سرمایہ کاری شرعاً   مضاربت  کہلاتی ہے،اور مضاربت  کے عقد  میں نفع  کی ایک مخصوص رقم مقرر کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ حاصل شدہ نفع کو رب المال (انویسٹر) اور مضارب (محنت کرنے والے) کے درمیان فیصد کے اعتبار سے مقرر کرنا ضروری ہے؛ لہذا صورت ِ مسئولہ میں  سائل کا فیصد کے اعتبار سے منافع میں شریک ہونا اور اس کاروبار میں رقم لگانا شرعاً جائز ہے ۔

باقی مضاربت میں انویسٹر کو ساتھ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر۔۔۔۔۔(ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط. فإن قال على أن لك من الربح مائة درهم أو شرط مع النصف أو الثلث عشرة دراهم لا تصح المضاربة كذا في محيط السرخسي."

(کتاب المضاربۃ،الباب الاول فی تفسیر المضاربۃ،ج:4،ص:287،دارالفکر)

در مختار میں ہے :

"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت."

(کتاب المضاربۃ،ج:5،ص:648،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں