میں نے2012 کے آخر اور 2013 کی ابتدا سے کاروبار شروع کیا،میں کاروبار چلاتا تھا،میری رقم اس میں شامل نہیں تھی،میری طرف سے عمل تھا، پارٹنر مجھے رقم دیتا تھاجس سے میں کاروبار چلاتا تھا،وہ کاروبار خوب چلا،2013 میں پارٹنر نے جب دیکھا کہ کاروبار اچھا چل رہا ہے،تو دوبارہ کچھ رقم دی ،لیکن 2017 ء میں اس کاروبار میں نقصان ہوا،اس نقصان کی وجہ سے وہ کاروبار 2018 میں مکمل ختم ہوگیا،اب پوچھنا یہ ہے کہ میں پارٹنر کو آدھی انویسمنٹ واپس کر چکا ہوں، اور باقی انویسمنٹ کا وہ مطالبہ کر رہا ہے۔
کیا کاروبار میں نقصان آنے کی وجہ سے میرے ذمہ پارٹنر کو اصل رقم واپس کرنا لازم ہے؟ جب کہ وہ اس کا مطالبہ بھی کر رہا ہے،اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
مذکورہ معاملہ جس میں ایک فرد کا مال اور دوسرے کی محنت ہےشرعاً مضاربت کہلاتا ہے،اور "مضاربت" کے معاملہ میں اصول یہ ہے کہ اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو اولاًحاصل شدہ نفع سے پورا کیا جاتا ہے، اگر نقصان نفع سے پورا ہوجائے تو ٹھیک ہے،ورنہ اس نقصان کی ذمہ داری رب المال ( انویسٹر ) پر عائد ہوتی ہے بشرطیکہ اس نقصان میں مضارب (عامل) کی غفلت کا کوئی دخل نہ ہو ،اگر نقصان مضارب کے قصور اور تعدی کی وجہ سے ہوا ہو تو اس صورت میں نقصان کی ذمہ داری مضارب پر عائد ہوتی ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کاروبار میں نقصان مضارب ( عامل) کی غفلت،تعدی کی وجہ سے نہیں ہوا،تو اس نقصان کو سب سے پہلے اس نفع سے پورا کیا جائےگا جو اس مضاربت سے حاصل ہوا ہے، اگر وہ نقصان نفع سے پورا ہوجائے تو ٹھیک ،بصورت دیگر یہ نقصان رب المال (سرمایہ دار ) کا شمار ہوگا سائل (مضارب ) پر یہ رقم ادا کرنا لازم نہیں ہے،اور نہ ہی سائل نقصان کی صورت میں اس رقم کو واپس کرنے کا پابند ہے ۔
اوراگر مذکورہ کاروبار میں نقصان کی وجہ مضارب (عامل)کی غفلت،تعدی تھی،تو اس صورت میں مضارب (عامل)ہی اس کا ضامن ہو گا۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"قوله: (و ما هلك من مال المضاربة فمن الربح فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لكونه أمينًا سواء كان من عمله أو لا قوله: (و إن قسم الربح و بقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادّا الربح ليأخذ المالك رأس ماله وما فضل فهو بينهما و إن نقص لم يضمن)؛ لأن قسمة الربح قبل قبض رأس المال موقوفة فإذا قبض رب المال رأس ماله نفذت القسمة وإن هلك ما أعد لرأس المال كانت القسمة باطلة وتبين أن المقسوم كان رأس المال قوله (وإن قسم الربح وفسخت ثم عقداها فهلك المال لم يترادا) وهذه مفهوم قوله وبقيت المضاربة لأن الأولى قد انتهت بالفسخ و هي الحيلة النافعة للمضاربة والله أعلم".
(كتاب المضاربة، باب المضارب يضارب، ج:7، ص:268، ط:دار الكتاب الإسلامي)
العنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:
"قال: (و ما هلك من مال المضاربة فهو من الربح إلخ) الأصل في هذا أن الربح لايتبين قبل وصول رأس المال إلى رب المال.
قال النبي صلى الله عليه وسلم: «مثل المؤمن كمثل التاجر لايسلم له ربحه حتى يسلم له رأس ماله» فكذا المؤمن لايسلم له نوافله حتى تسلم له عزائمه، أو قال فرائضه، و لأن رأس المال أصل والربح تبع، و لا معتبر بالتبع قبل حصول الأصل، فمتى هلك منه شيء استكمل من التبع، فإذا زاد الهلاك على الربح فلا ضمان عليه لأنه أمين، و إن اقتسماه ترادا لأن القسمة تفيد ملكًا موقوفًا إن بقي ما أعد إلى رأس المال إلى وقت الفسخ كان ما أخذه كل منه ملكا له، و إن هلك بطلت القسمة و تبين أن المقسوم رأس المال".
(كتاب المضاربة، باب المضارب يضارب، فصل في العزل والقسمة، ج:8، ص:471، ط:مطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100647
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن