بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیکڑے کے شکاری کو دولاکھ روپے سرمایہ دے کر ایک کلو کیکڑے شکار کر کے فروخت کرنے پر 100 روپے منافع کا معاملہ طے کرنا


سوال

 میں نے ایک بندہ کو دو لاکھ روپے دیےہیں، اور وہ کیکڑے پکڑتا ہےاورفروخت کرتا ہے، میں نے پیسے اس ترتیب سے دیے ہیں کہ وہ مجھے ایک کلو پر سو روپے نفع دے گا، چاہے وہ سو کلو فروخت کرے یا ایک، لیکن جب بھی مال بیچے گا تو مجھے کلو کے حساب سے سو روپے نفع دے گا، اور جس دن مال نہیں ہوگا، اس دن کچھ بھی نہیں دے گا۔

جواب

بصورتِ مسئولہ سائل کا کیکڑے کے شکاری کو دولاکھ روپے سرمایہ دے کر مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق منافع وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ شکار پکڑنے جیسے کاموں میں شراکت داری کا معاملہ کرنا   شرعاً جائزنہیں ہے، نیز اگر کیکڑوں کو پکڑ کر خوراک کی نیت سے فروخت کیا جاتا ہو تو اِس میں مزید خرابی لازم آئے گی،کیوں کہکیکڑا  حشرات الارض میں سے ہے، اس لیے اس کا کھانا مکروہ تحریمی ہے، اور کھانے کے لیے اس کی تجارت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔بہرصورت مذکورہ معاملہ شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے، اِس کو ختم کرنا ضروری ہے، شکاری نے جتنے کیکڑے پکڑے وہ اُسی کے ہیں، اُس پر وصول کردہ نفع کا سائل حق دار نہیں،(نیز شکاری خود بھی کیکڑوں کو خوراک کی نیت سے فروخت نہیں کرسکتا، تاہم ادویات بنانے والی کمپنی/حکیم وغیرہ کو دوائی بنانے کی غرض سےفروخت کرسکتا ہے) باقی جو سائل نے دولاکھ روپے اُس کو دیے تھے وہ اُس سے واپس وصول کرلے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولا ‌يجوز ‌بيع ‌ما ‌يكون ‌في ‌البحر كالضفدع والسرطان وغيره إلا السمك ولا يجوز الانتفاع بجلده أو عظمه كذا في المحيط.

وفي النوازل ويجوز بيع الحيات إذا كان ينتفع بها في الأدوية وإن كان لا ينتفع بها لا يجوز والصحيح أنه يجوز بيع كل شيء ينتفع به كذا في التتارخانية".

)كتاب البيوع، الباب التاسع فيما يجوز بيعه وما لا يجوز، الفصل الخامس في بيع المحرم الصيد وفي بيع المحرمات،ج:3، ص:114، ط: دارالفكر)

ہدایہ  میں ہے:

"(ولا تجوز الشركة في الاحتطاب والاصطياد، وما اصطاده كل واحد منهما أو احتطبه فهو له دون صاحبه) ، وعلى هذا الاشتراك في أخذ كل شيء مباح؛ لأن الشركة متضمنة معنى الوكالة، والتوكيل في أخذ المال المباح باطل لأن أمر الموكل به غير صحيح، والوكيل يملكه بدون أمره فلا يصلح نائبا عنه، وإنما يثبت الملك لهما بالأخذ وإحراز المباح، فإن أخذاه معا فهو بينهما نصفان لاستوائهما في سبب الاستحقاق، وإن أخذه أحدهما ولم يعمل الآخر شيئا فهو للعامل."

(كتاب الشركة، ‌‌فصل: في الشركة الفاسدة، ج:3، ص:13، ط:دارإحياء التراث العربي)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"‌وشروط ‌عقد ‌الشركة ‌أيضا ‌أن ‌يكون ‌المعقود ‌عليه ‌قابلا ‌للتوكيل ‌فلذلك ‌لا ‌تصح ‌الشركة ‌في ‌المباحات ‌كالاصطياد."

(الكتاب العاشر الشركات، الباب السادس، الفصل الأول، ج:3، ص:339، ط:دار الجيل)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144606101304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں