مالک زمین نے اس شرط پر زمین مزارعت پر دی کہ تمام خرچہ یعنی بیج ڈالنا، ہل چلانا اور کھاد فراہم کرنا مالک زمین کے ذمہ ہے،مزارع (کاشتکار) کے ذمہ صرف عمل ہے، اورپیداوار میں سے دو تہائی مالک زمین کا ہو گا اور ایک تہائی مزارع(کاشتکار) کا ہو گا شرعاً مزارعت کی یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟
نیز یہ بتلائیں پیداوار تیار ہونے کے بعد مالک زمین فصل اور سبزیاں وغیرہ مارکیٹ تک لے جانے کے لیے اپنا ٹریکٹر استعمال کرے،جس میں2/3 خرچہ مالک زمین پر آئے گا،اور1/3 مزارع سے زمین دار لے گا،تو کیا زمین دار اس طرح اجرت لے کر مشترک فصل اور سبزیاں وغیرہ کو اپنے ٹریکٹر میں بازار تک لے جا سکتا ہے کہ نہیں؟ جب کہ مزارع اس بات پر راضی ہو اور ہمارے علاقہ میں یہی عرف چل رہا ہے۔
صورت مسئولہ میں جب مالک زمین نے اس شرط پر زمین مزارعت پر دی کہ تمام خرچہ یعنی بیج ڈالنا، ہل چلانا اور کھاد فراہم کرنا مالک زمین کے ذمہ ہے،مزارع (کاشتکار) کے ذمہ صرف عمل ہے، اورپیداوار میں سے دو تہائی مالک زمین کا ہو گا اور ایک تہائی مزارع(کاشتکار) کا ہو گا توشرعاً مزارعت کی یہ صورت جائز ہے۔
پیداوار تیار ہونے کے بعد مالک زمین مشترکہ فصل اور سبزیاں وغیرہ مارکیٹ تک لے جانے کے لیے اپنا ٹریکٹر استعمال کرسکتا ہے،جس میں2/3 خرچہ مالک زمین پر آئے گا،اور1/3 مزارع کے ذمہ ہوگا ، زمین دار اس طرح مزارع سے اجرت لے کر مشترک فصل اور سبزیاں وغیرہ کو اپنے ٹریکٹر میں بازار تک لے جا سکتا ہے ، اس لیے کہ یہ پیداواری اخراجات نہیں، بلکہ اس کے علاوہ مشترکہ پیداوار کو مارکیٹ لے جا کر زیادہ دام میں فروخت کرنے کے لیے ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وكذا) صحت (لو كان الأرض والبذر لزيد والبقر والعمل للآخر) أو الأرض له والباقي للآخر (أو العمل له والباقي للآخر) فهذه الثلاثة جائزة (وبطلت) في أربعة أوجه (لو كان الأرض والبقر لزيد، أو البقر والبذر له والآخران للآخر) أو البقر أو البذر له (والباقي للآخر) ، فهي بالتقسيم العقلي سبعة أوجه؛ لأنه إذا كان من أحدهما أحدها والثلاثة من الآخر، فهي أربعة، وإذا كان من أحدهما اثنان واثنان من الآخر فهي ثلاثة، ومتى دخل ثالث، فأكثر بحصة فسدت، وإذا صحت، فالخارج على الشرط ولا شيء للعامل إن لم يخرج شيء في الصحيحة....أرض وبذر كذا أرض كذا عمل … من واحد ذي ثلاث كلها قبلت....والبذر مع بقر أو لا كذا بقر … لا غير أو مع أرض أربع بطلت."
(كتاب المزارعة، ج:6، ص:277، ط:سعيد)
الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے :
"قال: "وهي عندهما على أربعة أوجه: إن كانت الأرض والبذر لواحد والبقر والعمل لواحد جازت المزارعة" لأن البقر آلة العمل فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط بإبرة الخياط، "وإن كان الأرض لواحد والعمل والبقر والبذر لواحد جازت" لأنه استئجار الأرض ببعض معلوم من الخارج فيجوز كما إذا استأجرها بدراهم معلومة "وإن كانت الأرض والبذر والبقر لواحد والعمل من آخر جازت" لأنه استأجره للعمل بآلة المستأجر فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط ثوبه بإبرته أو طيانا ليطين بمره "وإن كانت الأرض والبقر لواحد والبذر والعمل لآخر فهي باطلة" وهذا الذي ذكره ظاهر الرواية."
(کتاب المزارعۃ،ج:4،ص:338،داراحیاءالتراث العربی)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"والأصل أن كل ما يحتاج إليه الزرع قبل إدراكه وجفافه مما يرجع إلى إصلاحه من السقي والحفظ وقلع الحشاوة وحفر الأنهار ونحوها فعلى المزارع وكل عمل يكون بعد تناهي الزرع وإدراكه وجفافه قبل قسمة الحب مما يحتاج إليه لخلوص الحب وتنقيته يكون بينهما على شرط الخارج وكل عمل يكون بعد القسمة من الحمل إلى البيت ونحوه مما يحتاج إليه لإحراز المقسوم فعلى كل واحد في نصيبه."
( كتاب المزارعة، ج:5، ص: 273-274،ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن