بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مزارعت کی تین رائج صورتوں کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں مزارعت کی چند صورتیں رائج ہیں ،جن کی جواز وعدم جواز کے بارے میں فتوی مطلوب ہے۔ بحوالہ جواب دے کر ممنون ومشکور فرمائیں۔ تفصیل درج ذیل ہے:

(1) مالک زمین کی طرف سے زمین، کاشت کار کی طرف سے فصل کھڑے ہونے کے وقت کی مزدوری اور پکنے کے بعد کاٹنا اور تھریشر کرنا بھی۔ باقی تخم، ٹریکٹر، کھاد وغیرہ کا خرچہ دونوں پر بقدر حصص۔

(2) مالک زمین کی طرف سے زمین، کاشت کار کی طرف سے پکنے تک عمل۔ باقی تمام چیزیں مشترک۔

(3) مالک زمین کی طرف سے زمین، کاشت کار کے ذمہ مزدوری۔ باقی چیزوں پر جتنا خرچہ آئے وہ فی الحال کاشت کار کے ذمہ اور فصل تیار ہونے کے بعد اس کو فصل سے نکال کر باقی فصل کو حصوں کے مطابق تقسیم کرنا۔

جواب

بصورتِ مسئولہ مزارعت کی  ذکرکردہ  صورتیں شرعی اعتبار سے  ناجائز  ہیں ، تاہم مزارعت  کی مندرجہ  ذیل صورتیں    شرعاً جائز ہیں:

1- زمین اور بیج ایک کا ہو اور بیل (یا ٹریکٹر) ومحنت دوسرے کی ہو۔

2- زمین ایک کی ہو اور بیج اور بیل اور محنت دوسرے کی ہو۔

3- زمین اور بیل (یا ٹریکٹر)  اور  بیج ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی ہو۔

اگر مذکورہ بالا صورتوں  میں  سے کوئی صورت  نہ  ہو تو مزارعت فاسد ہوجائے گی۔

مبسوط سرخسی میں ہے :

"قال - رحمه الله - وإذا دفع الرجل إلى الرجل أرضا على أن يزرعها بنفسه وبقره، والبذر بينهما نصفان، والخارج بينهما نصفان فهذه مزارعة فاسدة؛ لأن الدافع يصير كأنه قال: ازرع نصف الأرض ببذري على أن الخارج كله لي، وازرع نصف الأرض ببذرك على أن الخارج كله لك، وكل واحد من هذين صحيح لو اقتصر عليه؛ لأن أحدهما استعان بالعامل، والآخر أعاره الأرض ولكن عند الجمع بينهما يظهر المفسد بطريق المقابلة، وهو أنه لما جعل للعامل بإزاء عمله في نصف الأرض منفعة نصف الأرض وذلك في المزارعة لا يجوز، والخارج بينهما نصفان على قدر بذرهما ولا أجر للعامل؛ لأنه عمل في شيء هو شريك فيه، فإنه ألقى في الأرض بذرا مشتركا ثم عمل في زرع مشترك فلا يستوجب الأجر، ولصاحب الأرض على العامل نصف أجر مثل الأرض؛ لأنه استوفى منفعة نصف الأرض بحكم عقد فاسد، وقد بينا أن الشركة في الخارج لا تمنع وجوب أجر مثل الأرض؛ لأنه يجب أجر مثل النصف الذي هو مشغول بزرع العامل، ثم يطيب نصف الخارج لصاحب الأرض؛ لأنه رباه في أرضه، وأما العامل فيتصدق بالفضل فيما بينه وبين ربه؛ لأنه رباه في أرض غيره بسبب فاسد".

(کتاب المزارعۃ،باب اجتماع  صاحب الارض مع الآخر،ج:23،ص:31،دارالمعرفۃ)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(ومنها) : أن يشترط في عقد المزارعة أن يكون ‌بعض ‌البذر من قبل أحدهما، والبعض من قبل الآخر، وهذا لا يجوز؛ لأن كل واحد منهما يصير مستأجرا صاحبه في قدر بذره، فيجتمع استئجار الأرض والعمل من جانب واحد وإنه مفسد".

(کتاب المزارعۃ،فصل فی الشرائط المفسدۃللمزارعۃ،ج:6،ص:180،دارالکتب العلمیۃ)

الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی میں ہے :

"قال: "وهي عندهما على أربعة أوجه: إن كانت الأرض والبذر لواحد والبقر والعمل لواحد جازت المزارعة" لأن البقر آلة العمل فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط بإبرة الخياط، "وإن كان الأرض لواحد والعمل والبقر والبذر لواحد جازت" لأنه استئجار الأرض ببعض معلوم من الخارج فيجوز كما إذا استأجرها بدراهم معلومة "وإن كانت الأرض والبذر والبقر لواحد والعمل من آخر جازت" لأنه استأجره للعمل بآلة المستأجر فصار كما إذا استأجر خياطا ليخيط ثوبه بإبرته أو طيانا ليطين بمره "وإن كانت الأرض والبقر لواحد والبذر والعمل لآخر فهي باطلة" وهذا الذي ذكره ظاهر الرواية."

(کتاب المزارعۃ،ج:4،ص:338،داراحیاءالتراث العربی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511102704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں