میں نے ایک شخص کو کچھ رقم کاروبار کرنے کے لیے دی تھی،تو انہوں نے کہا کہ میں ہر مہینے آپ کو 20000 روپے دوں گا،میں نے کہا کہ نہیں ،نفع مقرر کرنا تو سود ہے،انہوں نے کہا کہ کبھی 18 کبھی 19 اور کبھی 20 دوں گا،تو کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے یا سود کے زمرے میں آتاہے؟
واضح رہے کہ شرکت و مضاربت میں حاصل ہونے والے نفع کی تقسیم فیصد کے اعتبار سے کرنا شرعا ضروری ہوتا ہے، متعین نفع متعین رقم کی صورت میں مقرر کرنا ناجائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں نفع متعین رقم مثلا 20000 مہینہ کی صورت میں طے کرنا یا کبھی 18 کبھی 19اور کبھی 20 ہزار طے کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ہر مہینے ہونے والے کل نفع فیصد کے اعتبار سے طے کرنا ضروری ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت (وكون نصيب كل منهما معلوما) عند العقد."
(کتاب المضاربة، 5/ 648،ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100486
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن