بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشارکت میں متعین نفع طے کرنے کا حکم/ نفع حاصل ہونے سے پہلے نفع کی رقم پر قبضے کا حکم


سوال

ایک بندے نے مجھے 20لاکھ روپے دیے کہ مجھے کاروبار میں شریک کرو، جو معاہدہ ہمارے درمیان طے پایا تھا وہ یہ تھا کہ  ہر 15 دن بعد آپ مجھے 10 فیصد منافع  دو گے،لیکن ہوا یہ  کہ جب بھی مال دکان پر آجاتاہے، ابھی مال فروخت نہیں ہوتا کہ وہ شخص  حساب لگا کر اپنا طے شدہ منافع وصول کرلیتاہے، تو کیایہ سود ہے کہ نہیں؟ کیوں کہ ہم چارے (گھاس) کاکام کرتے ہیں ،اوراسی طرح کبھی کبھی کاروبار میں نقصان بھی ہو جاتاہے،لیکن وہ  اپنا طے شدہ منافع پہلے سے وصول کرچکاہوتاہے ،تو کیااس کایہ عمل درست ہے؟

دوسری بات یہ ہے کہ کاروبار میں اگرہمیں نقصان ہو جائے تو نقصان بھی صرف میرے  اوپرہوتاہے ،وہ کہتاہے کہ میں صرف منافع میں شریک ہوں ،نقصان میں شریک نہیں ہوں،کیااس کایہ  عمل درست ہے؟کیامیں یہ معاملہ ختم کرسکتاہوں؟ اگرختم کرسکتاہوں توکیاطریقہ کار ہوگا ؟ 

میں اس معاملے کو ختم کرنا چاہتا ہوں، براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

  واضح رہے کہ اگر شراکت یا مضاربت وغیرہ کے معاملہ میں نفع سرمائے کے  فیصد کے مطابق  طے کیا جائے تو یہ سود کے زمرے میں ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لیکن اگر کاروبار میں سے حاصل ہونے والے منافع کا فیصد طے کیا جائے کہ  مثلًا  اتنا فیصد ایک شریک کا ہوگا اور اتنا فیصد دوسرے شریک کا ہوگا تو یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا اور اس طرح نفع کا تناسب طے کرنا  جائز، بلکہ لازم ہے۔

مشترکہ  کاروبار  میں ہر شریک کا نفع میں سے  حصہ طے کرنا لازم ہے ،  جس کا طریقہ یہ  ہے کہ نفع  کی  تعیین حاصل شدہ نفع کے فیصدی تناسب سے  طے کی جائے گی،مثلاً  نفع  دونوں  کے  درمیان آدھا آدھا  ہوگا، یا کسی  ایک  فریق  کے  لیے  ساٹھ  فیصد  اور  دوسرے  کے  لیے چالیس فیصد یا دونوں  کے  سرمایہ  کے بقدرنفع تقسیم کیاجائے، یااگر دونوں شریک کام کرتے ہوں اور ایک شریک زیادہ محنت کرتاہے یاکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہے تو اس  کے  لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے، اورنفع کے حصول کےیہ طریقے جائز ہیں۔

اگر  دونوں شریک  ہیں، لیکن ایک شریک کام کرتاہے دوسرا شریک کام نہیں کرتا تو جو کام کرتاہے اس کے لیے نفع کا تناسب سرمائے کے تناسب سے زیادہ مقرر کرنا درست ہوگا، لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب  اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ایسی صورت میں سرمائے کے تناسب سے نفع تقسیم ہوگا۔

البتہ کاروبار میں رقم لگاکر نفع کو متعین کردینا مثلاً  یہ کہناکہ فلاں شریک کو  ہر  مہینے نفع کے طور پر اتنی رقم دی جائے، یا سرمائے کا اتنا فیصد دیا جائے  یہ طریقہ درست نہیں ہے۔حاصل یہ ہے کہ  متعین نفع مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔

صورت مسئولہ میں سرمایہ لگانےوالےکو اس کے سرمایہ کا ایک مخصوص حصہ بطورنفع کے دیناسود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،شرکت  کے درست ہونے کے لیے حاصل ہونے والے منافع میں فیصدی تناسب طےکرنا ضروری ہے،سرمایہ کافیصدی  تناسب طے کرنا شرعاناجائزہے،نیزسرمایہ لگانے والے کا ہرحال میں اپنانفع وصول کرنابھی جائزنہیں ،بلکہ اگر کاروبارمیں جائزطریقے سے ہواورنفع ہو تونفع ملے گا،اوراگرنقصان ہوگیاتو وہ بھی برداشت کرناہوگا۔

 شرکت میں نقصان ہونے کی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد کسی کی سرمایہ کاری ہے ، اتنے ہی فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا ، نقصان کے باوجود اپنی پوری رقم کا مطالبہ کرنا شرعا ناجائز ہے اور اگر آپ اپنی خوشی اور رضامندی سے اُن کی پوری رقم واپس کردیں، تو یہ آپ کی طرف سے تبرع سمجھا جائے گا، اس میں آپ گنہگار نہیں ہوں گے ۔

شرکت ختم کرنے کی صورت میں سرمایہ سے خریداجانے والا جو سامان ہوگا اس مشترکہ سامان کی قیمت لگاکر ہر ایک کا حصہ اور منافع اپنی اپنی سابقہ شرائط کے مطابق تقسیم کرلیاجائے، اور چاہیں تو ہر ایک شریک اپنے موجود سرمایہ کی رقم کے بقدر سامان لے لے یا دوسرا فریق باہمی رضامندی سے سامان اپنے پاس رکھ کر نقد رقم دے دے دونوں صورتیں درست ہیں۔(امدادالاحکام ص:340)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح."

( کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة،ج، 59،6، ص،ط،دارالکتب العلمیة)

وایضافیہ:

" والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا؛ لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال."

کتاب الشرکة،فصل فی بیان شرائط جواز انواع الشرکة،ج،6،ص،62، ط، دار الکتب العلمیة )

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: و تصح مع التساوي في المال دون الربح و عكسه) و هو التفاضل في المال والتساوي في الربح  وقال زفر والشافعي: لايجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثاً فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان؛ إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل، ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان؛ فيستحق بقدر الملك في الأصل.

و لنا قوله عليه السلام: الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين. ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة، وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى أو أكثر عملاً فلايرضى بالمساواة؛ فمست الحاجة إلى التفاضل. قيد بالشركة في الربح؛ لأن اشتراط الربح كله لأحدهما غير صحيح؛ لأنه يخرج العقد به من الشركة، ومن المضاربة أيضاً إلى قرض باشتراطه للعامل، أو إلى بضاعة باشتراطه لرب المال، وهذا العقد يشبه المضاربة من حيث أنه يعمل في مال الشريك ويشبه الشركة اسماً وعملاً فإنهما يعملان معاً، فعملنا بشبه المضاربة وقلنا: يصح اشتراط الربح من غير ضمان وبشبه الشركة حتى لاتبطل باشتراط العمل عليهما. وقد أطلق المصنف تبعاً للهداية جواز التفاضل في الربح مع التساوي في المال، وقيده في التبيين وفتح القدير بأن يشترطا الأكثر للعامل منهما أو لأكثرهما عملاً".

(کتاب الشرکة،شرکة العنان،ج،5،ص،188،ط،دارالکتاب السلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101278

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں