ہم لوگوں سے کاروبار کے لیے پیسے لیتے ہیں اور قسطوں کا کام کرتے ہیں، اور آگے لوگوں سے 45 فیصد نفع لیتے ہیں، یعنی جس کو قسط پر بیچتے ہیں اس کو 45 فیصد نفع کے ساتھ بیچتے ہیں، کاروبار کے لیے جن سے پیسے لیتے ہیں ان کو 24 فیصد نفع دیتے ہیں اور ہمارا معاہدہ چھ مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ آگے ہمارا قسطوں کا کاروبار بھی چھ مہینوں کے لیے ہوتا ہے، 6 مہینے میں قسط پوری کرنی ہوتی ہے اگر کبھی تاخیر ہو تو گاہک سے جرمانہ نہیں لیتے۔
1: اب ازروئے شریعت ہمارا گاہک سے 45 فیصد لینا اور جن سے کاروبار کے لیے پیسے لیتے ہیں ان کو 24 فیصد دینا جائز ہے یا نہیں؟
2:اگر مذکورہ کاروبار میں نقصان ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ اب تک کاروبار میں نقصان نہیں ہوا، اگر بالفرض نقصان ہو جائے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟جن حضرات سے پیسے لیتے ہیں اس کو یہ نقصان والی صورت بتانا ضروری ہے کہ اگر نقصان ہو جائے تونقصان تمہارے پیسوں سے وصول ہوگا بتانا ضروری ہے؟
3: ہم سرمایہ لگانے والوں کو ان سے طے شدہ منافع یک مشت ادا کرسکتے ہیں؟ یا جس طرح طے ہوا ہے اس طرح ادا کرنا لازم ہے؟
1: سوال میں ذکر کردہ صورت مضاربت کی ہے،یعنی مال ایک کا ہےاور کام دوسرے کا،لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ لوگوں سے پیسے لیتے ہیں پھر اگر آپ کوئی جائز چیز باقاعدہ خرید کر اپنے قبضے میں لیکر آگے قسطوں پر 45 فیصد نفع رکھ کر فروخت کرتے ہیں، تو یہ عمل جائز ہے، تاہم سرمایہ والوں کے ساتھ اگر ان کے سرمایہ کا 24 فیصد نفع متعین کرتے ہیں اور خود بقیہ 21 فیصد اپنے لیے رکھتے ہیں، تو نفع متعین کرنے کایہ طریقہ قابلِ اصلاح ہے،جواز کی صورت یہ ہے کہ اس طرح طے کیا جائے کہ حاصل ہونے والے منافع میں ان کا فیصد طے کیا جائے کہ جو نفع حاصل ہوگا اس کا پچاس پچاس فیصد ہر ایک کا ہے یا جو مقدار بھی باہمی رضامندی سے طے کرلی جائے، اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
2:اگر مذکورہ کاروبار میں نقصان ہوجائے تو سب سے پہلے حاصل ہونے والے نفع سے نقصان کا ازالہ ہوگا ،یعنی سائل سمیت جس نے جتنا منافع حاصل کیا ہے پہلے وہ واپس کرے گا ،اگر نفع میں نقصان کا ازاالہ نہ ہوا پھر سرمایہ سے اس نقصان کا ازالہ کیا جائے گا،ہر ایک کا اس کے سرمایہ کے بقدر نقصان ہوگا۔
3: آپ کا اگر معاہدہ ہوا ہے کہ 24 فیصد نفع سرمایہ کاروں کو دیا جائے گااور 21 فیصد سائل رکھے گا، اس صورت میں مقرر شدہ نفع میں کمی کیے بغیر حسبِ معاہدہ ادا کرنا لازمی ہے، البتہ آئندہ کے لیے اوپر ذکر کردہ طریقہ اختیار کیا جائے اور نقصان کے بارے میں بھی بتادیا جائے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"قوله: (و ما هلك من مال المضاربة فمن الربح فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لكونه أمينًا سواء كان من عمله أو لا قوله: (و إن قسم الربح و بقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادّا الربح ليأخذ المالك رأس ماله وما فضل فهو بينهما و إن نقص لم يضمن)؛ لأن قسمة الربح قبل قبض رأس المال موقوفة فإذا قبض رب المال رأس ماله نفذت القسمة وإن هلك ما أعد لرأس المال كانت القسمة باطلة وتبين أن المقسوم كان رأس المال قوله (وإن قسم الربح وفسخت ثم عقداها فهلك المال لم يترادا) وهذه مفهوم قوله وبقيت المضاربة لأن الأولى قد انتهت بالفسخ و هي الحيلة النافعة للمضاربة والله أعلم".
(كتاب المضاربة، باب المضارب يضارب، ج: 7، ص: 268، ط: دار الكتاب الإسلامي)
العنایۃ شرح الہدایۃ میں ہے:
"قال: (و ما هلك من مال المضاربة فهو من الربح إلخ) الأصل في هذا أن الربح لايتبين قبل وصول رأس المال إلى رب المال.
قال النبي صلى الله عليه وسلم: «مثل المؤمن كمثل التاجر لايسلم له ربحه حتى يسلم له رأس ماله» فكذا المؤمن لايسلم له نوافله حتى تسلم له عزائمه، أو قال فرائضه، و لأن رأس المال أصل والربح تبع، و لا معتبر بالتبع قبل حصول الأصل، فمتى هلك منه شيء استكمل من التبع، فإذا زاد الهلاك على الربح فلا ضمان عليه لأنه أمين، و إن اقتسماه ترادا لأن القسمة تفيد ملكًا موقوفًا إن بقي ما أعد إلى رأس المال إلى وقت الفسخ كان ما أخذه كل منه ملكا له، و إن هلك بطلت القسمة و تبين أن المقسوم رأس المال".
(كتاب المضاربة، باب المضارب يضارب، فصل في العزل والقسمة، ج: 8، ص: 471، ط: مطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102515
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن