بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مورث کی زندگی میں تقسیم میراث


سوال

 ہمارے  والد صاحب  24  سال پہلے فوت ہو گئے تھے، تب  ہم کرایہ کے مکان میں رہتے تھے، کل ترکہ تقریباً  پچاس ہزار روپے چھوڑا، 3سال بعد ہم نے مکان لیا، 315000  کا جو کے والدہ کے نام ہے، اور وہ الحمدللہ حیات ہیں، اگر ہم اس مکان کو بیچ کر حصے کرتے ہیں تو کیا بہنوں کا حصہ ہو گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ   والدین میں سے جو وفات پاجائے ان کی ہر جائیداد  میں تمام اولاد کا  حصہ ہوتا ہے،  لڑکے کا لڑکی  سے دوگنا حصہ  ہوتا ہے، اور اگر  والدین اپنی زندگی میں تقسیم کریں تو لڑکے اور لڑکی کا برابر ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  والد کے چھوڑے ہوئے 50000 روپے میں سے بیٹیوں کو اپنا پورا  شرعی حصہ ملے گا ۔ اور بعد میں لیا ہوا  مکان اگر والدہ کا ہے  (خواہ انہوں نے اپنی رقم سے لیا ہو یا اولاد نے خریدتے وقت ہی والدہ کے نام کرکے انہیں مالک بنا دیا ہو)   اور  والدہ اپنی خوشی اور رضا سے اپنی زندگی میں اس کی تقسیم کرنا چاہتی ہیں، تو اس میں بیٹیاں بھی بالکل برابر کی شریک ہوں گی، یعنی جتنا حصہ  ایک بیٹے کا ہوگا اتنا ہی حصہ ایک بیٹی کا بھی ہوگا۔ 

اور اگر وہ مکان بیٹوں نے اپنی ذاتی کمائی سے خریدا ہے  تو وہی اس کے مالک ہوں گے، لہذا وہ اگر اپنی خوشی سے بہنوں کو حصہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اور اگر اس مکان کی خریداری میں بہنوں نے بھی برابر کا حصہ لیا ہے تو  تقسیم میں وہ بھی برابر کی حصہ دار ہوں گی، ورنہ جتنا  حصہ جس نے ملایا ہے فیصد کے اعتبار سے اس کی تقسیم ہوگی۔

 رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه»" .

(صحیح بخاری، کتاب الھبۃ و فضلھا والتحریر علیھا، باب الھبۃ للولد واذا اعطی بعض ولدہ شیئا۔۔۔۔۔۔،رقم الحدیث:  26024)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

(مظاہر حق، باب العطایا، ج: 3،ص:193،ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

" أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ.".

(مطلب متى ذكر الواقف شرطين متعارضين يعمل بالمتأخر،ج:4،ص: 444،ط:دار الفكر-بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں