بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے علیحدہ ہونے کے بعد بچوں کی پرورش کا حق دار کون ہے؟


سوال

میری شادی کو دس سال ہو گئے،شادی کے تین چار دن صحیح گزرے اس کے بعد میری بیوی اپنی والدہ اور بہن کے کہنے پر چلتی رہی،ہر معاملہ میں میری بات نہیں مانتی تھی، اور دوسروں کی باتوں پر مجھ سے لڑائیاں کر کے اپنے گھر بیٹھ جاتی تھی،مجھے گالیاں بھی دیتی ہے،جب ٹک ٹاک کا زمانہ آیا تو ایک دن میں نے سالی کو ٹک ٹاک بناتے ہوئے دیکھا،پھر کئی مرتبہ اس کے ساتھ ساس کو بھی  ٹک ٹاک پر ناچ گانا کرتے ہوئے دیکھا،اور کئی بار اپنی بیوی کو بھی سالی کے ساتھ ٹک ٹاک پر ناچ گانا کرتے ہوئے دیکھا،میں نے منع کیا لیکن وہ کہتی ہے ، کہ میری مرضی ہے،جو چاہوں گی وہ کروں گی،میرے سالے کے بچے  بھی موبائل میں ہر وقت لگے رہتے ہیں،یعنی پورا آزاد ماحول ہے۔

اب چوں کہ میں نے اپنی بیوی کو اس کی والدہ  کے  گھر بھیجا ہے،کیا اس ماحول میں  تربیت کے لئے بیوی کے ساتھ اپنے بچوں کو ساس کے گھر چھوڑ سکتا ہوں،لڑائی جھگڑے بہت بڑھ گئے ہیں،علیحدگی سے پہلے یا علیحدگی کے بعد میں اپنے بچوں کو بیوی کے ساتھ جانے سے منع کر سکتا ہوں؟ اس لئے کہ وہاں ماحول بہت خراب ہے،وہ بھی اس میں پرورش پا کر غلط راستے پر چلنا شروع کریں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نے اپنی بیوی اور ان کے میکے کےآزاد ماحول کے بارے میں جو لکھا ہے، اگر واقعۃً سائل کی اہلیہ کے میکے میں اس قدر آزاد ماحول ہے،جہاں بچوں کا غیر اخلاقی و غیر شرعی حرکات میں مبتلا ہونا یقینی ہو،تو سائل اپنے بچوں کو وہاں جانے سے روک سکتا ہے، جب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی  اس وقت تک ماں اور نانی کے فسق وفجور میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بچوں کی  دادی  ان کی پرورش کی حق دار  ہیں،اور مذکورہ عمر کے بعد سائل ان کی تربیت کا حق دار ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌أحق ‌الناس ‌بحضانة ‌الصغير ‌حال ‌قيام ‌النكاح ‌أو ‌بعد ‌الفرقة ‌الأم إلا أن تكون مرتدةأو فاجرة غير مأمونةكذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق. ولا تجبر عليها في الصحيح لاحتمال عجزها إلا أن لا يكون له ذو رحم محرم غيرها فحينئذ تجبر على حضانته كي لا يضيع بخلاف الأب حيث يجبر على أخذه إذا امتنع بعد الاستغناء عن الأم كذا في العيني شرح الكنز، وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير. ذكر الخصاف في النفقات إن كانت للصغيرة جدة من قبل أبيها وهي أم أبي أمها فهذه ليست بمنزلة من كانت من قرابة الأم من جهة أمها كذا في البحر الرائق،۔۔۔

وإنما يبطل حق الحضانة لهؤلاء النسوة بالتزوج إذا تزوجن بأجنبي، فإن تزوجن بذي رحم محرم من الصغير كالجدة إذا كان زوجها جدا لصغير أو الأم إذا تزوجت بعم الصغير لا يبطل حقها كذا في فتاوى قاضي خان. ومن سقط حقها بالتزوج يعود إذا ارتفعت وإذا كان الطلاق رجعيا لا يعود حقها حتى تنقضي عدتها لقيام الزوجية كذا في العيني شرح الكنز.

ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها۔۔۔

والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين۔۔۔

وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجاريةفالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:541، ط:رشیدیہ کوئٹہ)

فتاوی شامی میں ہے:

(‌والحاضنة) ‌أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب،

"(قوله: حتى يستغني عن النساء) بأن يأكل ويشرب ويستنجي وحده، والمراد بالاستنجاء تمام الطهارة بأن يتطهر بالماء بلا معين، وقيل مجرد الاستنجاء وهو التطهير من النجاسة وإن لم يقدر على تمام الطهارة زيلعي أي الطهارة الشاملة للوضوء. (قوله: وقدر بسبع) هو قريب من الأول بل عينه لأنه حينئذ يستنجي وحده، ألا ترى إلى ما يروى عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال «مروا صبيانكم إذا بلغوا سبعا» والأمر بما لا يكون إلا بعد القدرة على الطهارة زيلعي. (قوله: وبه يفتى)وقيل بتسع سنين. (قوله: لأنه الغالب) أي الاستغناء هو الغالب في هذا السن".

(كتاب الطلاق،باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں