بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مہر میں سونا مقرر کرنے کی صورت میں سونے کی مقدار کا اعتبار ہوگا


سوال

میں نے مہر کی رقم 20 مثقال مقرر کی تھی، جس میں 10 مثقال معجل تھی( جو میں ادا کرچکا ہوں) اور باقی 10 مثقال مؤجل تھی، جو کہ ادا کرنا باقی ہے، اس وقت 10 مثقال کی قیمت ڈھائی لاکھ تھی، اب پوچھنا یہ ہے کہ باقی مہر جو مؤجل ہے، کیا وہ دس مثقال ہی دینا ہوگا یا اس وقت جو ڈھائی لاکھ روپے قیمت بنتی تھی وہ دینا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل پر باقی ماندہ مہر  دس مثقال سونا یا پھر  جس وقت مہر ادا کرے اس وقت  کے حساب سے دس مثقال سونے کی قیمت دینا لازم ہوگا، خواہ وہ کتنی ہی قیمت بنے، جس وقت مہر مقرر کیا تھا اس وقت کے حساب سے سونے کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ثم الأصل) في التسمية أنها إن صحت وتقررت يجب المسمى."

(كتاب النكاح، الباب السابع، الفصل الأول، ج:1، ص:303، ط: دارالفكر)

العقود الدریہ فی تنقیح  الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراهم وتصرف بها ‌ثم ‌غلا ‌سعرها ‌فهل ‌عليه ‌رد ‌مثلها؟

(الجواب) : نعم ولا ينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمدا من مجمع الفتاوى."

(باب القرض،279/1،دار المعرفة)

 فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي العتابية: من استقرض فغلت أو رخصت فعليه مثل ما قبض، ولا ينظر إلى الغلاء أو الرخص، كمن استقرض حنطة فارتفع سعرها و غلا أو رخص."

(كتاب البيوع، الفصل الرابع والعشرون في القروض مايجوز استقراضه، ج:9، ص:394، ط: مكتبة زكريا)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں