میں نے ایک شخص کو جو چکی چلاتا تھا پانچ لاکھ روپے مضاربت کے طور پر دیے ،اور ہمارا یہ معاہدہ ہوا کہ وہ ان پیسوں سے گندم خرید کر اس سے آٹا بنائے گا اور مجھے ایک کلو پر ایک روپیہ دے گا، چار ماہ تک اس نے مجھے کبھی 38 کبھی 40 کبھی 36 اور کبھی 25 ہزار دیے، اس کے بعد اس نے بالکل پیسے دینا چھوڑ دیے ، میں مانگتا رہا وہ ٹال مٹول کرتا رہا ،اب اس معاہدہ کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے، اور ہم نے معاہدہ میں یہ بھی کہا تھا کہ جو فریق معاہدہ کو ختم کرنا چاہے وہ ایک ماہ پہلے بتائے گا، میں نے تین چار ماہ پہلے اس معاملے کو ختم کرنے کا کہہ دیا ،اب وہ کہہ رہا ہے جو نفع ہوا ہے وہ سود ہے میں نہیں دوں گا، اور جو اصل رقم ہے اس کے متعلق کہہ رہا ہے ہر ماہ 30، 30 ہزار کر کے دوں گا۔
اب مجھے پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ معاہدہ درست تھا؟ کیا اس سے جو نفع ہوا ہے میرے لیے اس کا لینا جائز ہے ؟اور اصل رقم ایک ساتھ نادینا دوسرے فریق کے لیے جائز ہے یا ایک ساتھ دینا لازم ہے ؟
واضح رہے کہ عقد مضاربت میں اگر کسی نے نفع کو روپے کے حساب سے متعین کر دیا یعنی نفع میں سے 100 روپے فلاں شخص کو ملیں گے، اس سےعقد مضاربت فاسد ہو جاتا ہے ،اور اس عقد فاسدمیں جو نفع حاصل ہوتا ہے وہ رب المال کا ہوتا ہے اور مضارب کو اس کام کی اجرت دی جاتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل نے چکی والے کو جو پانچ لاکھ روپے دیے تھےکہ وہ ان پیسوں سےگندم خرید ے اور اس کا آٹابنا کر بیچےاور اس سے جو نفع ہوگا اس میں سے ایک کلو پروہ ایک روپیہ سائل کو دے گا ہے،یہ عقد شرعاًدرست نہیں تھا،ان پیسوں کو کاروبار میں لگا کرجو نفع ہوا ہے، وہ سارا کا سارا رب المال یعنی سائل کا ہے ،اور چکی والے شخص نے جو یہ کام کیا ہے، اس کواتنا کام کرنے والےمزدور کی اجرت کے بقدر اس کی اجرت جائے دی گی ۔
اور مذکور ہ شخص کا پیسے دینے میں ٹال مٹول کرنا درست نہیں ہے اس کو حدیث میں ظلم کہا گیا ہے،اس کو چاہیے کہ وہ تما م پیسے ایک ساتھ دے دے، اور اپنے آپ کو گناہ سے بچائے۔
البحرالرائق میں ہے:
"قال : (ولاتصح إلا أن یکون الربح بینهما مشاعاً، فإن شرط لأحدهما دراهم مسماةً فسدت )؛ لما مر في الشرکة، وکذا کل شرط یوجب الجهالة في الربح یفسدها لاختلال المقصود."
( کتاب المضاربة،ج:1،ص: 191،ط:دارالکتب العلمیة)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
"(قوله: ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما منه دراهم مسماة) لأن شرط ذلك يقطع الشركة لجواز أن لا يحصل من الربح إلا تلك الدراهم المسماة قال في شرحه: إذا دفع إلى رجل مالا مضاربة على أن ما رزق الله فللمضارب مائة درهم فالمضاربة فاسدة فإن عمل في هذا فربح، أو لم يربح فله أجر مثله وليس له من الربح شيء؛ لأنه استوفى عمله عن عقد فاسد ببدل فإذا لم يسلم إليه البدل رجع إلى أجرة المثل وليس له من الربح شيء كما في الإجارة."
(كتاب المضاربة، ج:1،ص:292، ط:المطبعة الخيرية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102335
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن