ایک شخص جو کہ ضعیف اور معذور ہے اور لیٹ کر نماز پڑھتا ہے، وہ نماز پڑھتے پڑھتے سوگیا اس کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ یہ نیند ناقض شمار ہوگی؟ نماز میں ہیئت مسنونہ پر سونا ناقض نہیں ہے، اب اس صورت میں کیا حکم لگایا جائے ؟ کیونکہ ایک طرف تو یہ لیٹ کر سویا ہے، اس لحاظ سے ناقض ہونی چاہئے، لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو معذور ہونے کی وجہ سے یہی اس کی ہیئتِ مسنونہ ہے، اس لحاظ سے ناقض نہیں ہونی چاہئے۔
واضح رہے کہ جس نیند کی وجہ سے انسان اپنے اعضاء پر قدرت برقرار نہ رکھ سکےاس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص پہلو پر یا ایک کولہے پر یا چہرے کے بل یا چت لیٹ کرسوجائے یا کسی ایسی چیز سے ٹیک لگا کر سوجائے کہ اگر اس چیز کو ہٹایا جائے تو وہ گرجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس میں وقت کی کوئی مقدار نہیں اگر تھوڑی دیر بھی آنکھ لگ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، البتہ صرف اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، البتہ اگر کوئی شخص نماز کے اندر سو جائے اور نماز کے اندر ہیئتِ مسنونہ ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نماز بھی نہیں ٹوٹتی، لیکن اگر ہیئتِ مسنونہ نہ ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز بھی ٹوٹ جائے گی، نیزہیئتِ مسنونہ کا مطلب نماز کی عمومی ہئیت ہے، معذوری کی حالت میں ٹیک لگا کر یا لیٹ کر پڑھنا بوجہ مجبوری جائز ہے، اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص جو عذر کی بنیاد پر لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہے ، اگر اس دوران سو گیا تو اس شخص کی نماز ٹوٹ جائے گی اور یہ نیند ناقض وضو بھی ہو گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وساجداً على الهيئة المسنونة ولو في غير الصلاة."
و في الرد:"(قوله: وساجداً) وكذا قائماً و راكعاً بالأولى، والهيئة المسنونة بأن يكون رافعاً بطنه عن فخذيه مجافياً عضديه عن جنبيه، كما في البحر. قال ط: وظاهره أن المراد الهيئة المسنونة في حق الرجل لا المرأة (قوله: ولو في غير الصلاة) مبالغة على "قوله: على الهيئة المسنونة" لا على قوله وساجداً؛ يعني أن كونه على الهيئة المسنونة قيد في عدم النقض ولو في الصلاة، وبهذا التقرير يوافق كلامه ما عزاه إلى الحلبي في شرح المنية، كما سيظهر. (قوله: على المعتمد) اعلم أنه اختلف في النوم ساجدا؛ فقيل: لايكون حدثاً في الصلاة وغيرها، وصححه في التحفة، وذكر في الخلاصة أنه ظاهر المذهب. وقيل: يكون حدثاً، وذكر في الخانية أنه ظاهر الرواية، لكن في الذخيرة أن الأول هو المشهور. وقيل إن سجد على غير الهيئة المسنونة كان حدثا وإلا فلا قال في البدائع: وهو أقرب إلى الصواب إلا أنا تركنا هذا القياس في حالة الصلاة للنص كذا في الحلية ملخصا وصحح الزيلعي ما في البدائع فقال: إن كان في الصلاة لا ينتقض وضوءه لقوله عليه الصلاة والسلام: "لا وضوء على من نام قائماً أو راكعاً أو ساجداً" وإن كان خارجها فكذلك في الصحيح إن كان على هيئة السجود وإلا ينتقض. "
(کتاب الطھارۃ، ج:1، ص:141، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها النوم) ينقضه النوم مضطجعا في الصلاة وفي غيرها بلا خلاف بين الفقهاء وكذا النوم متوركا بأن نام على أحد وركيه. هكذا في البدائع وكذا النوم مستلقيا على قفاه. هكذا في البحر الرائق.ولو نام قاعدا واضعا أليتيه على عقبيه شبه المنكب لا وضوء عليه وهو الأصح. كذا في محيط السرخسي.ولو نام مستندا إلى ما لو أزيل عنه لسقط إن كانت مقعدته زائلة عن الأرض نقض بالإجماع وإن كانت غير زائلة فالصحيح أن لا ينقض. هكذا في التبيين.ولا ينقض نوم القائم والقاعد ولو في السرج أو المحمل ولا الراكع ولا الساجد مطلقا إن كان في الصلاة وإن كان خارجها فكذلك إلا في السجود فإنه يشترط أن يكون على الهيئة المسنونة له بأن يكون رافعا بطنه عن فخذيه مجافيا عضديه عن جنبيه وإن سجد على غير هذه الهيئة انتقض وضوءه. كذا في البحر الرائق ثم في ظاهر الرواية لا فرق بين غلبته وتعمده وعن أبي يوسف النقض في الثاني والصحيح ما ذكر في ظاهر الرواية. هكذا في المحيط.واختلفوا في المريض إذا كان يصلي مضطجعا فنام فالصحيح أن وضوءه ينتقض. هكذا في المحيط والتبيين والبحر الرائق وعليه الفتوى. كذا في النهر الفائق."
(کتاب الطھارۃ، الفصل الخامس، ج:1، ص:12، ط:دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102830
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن