میری شادی کے 18 سال کے بعد میرے سسرال والوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ہماری بیٹی (میری بیوی) کے بدلے ہمیں اپنی دو سالہ بچی دو، لیکن میں اور میری بیوی اس پر رضامند نہیں تھے،میری غیر موجودگی میں انہوں نےکچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے زبردستی میری دو سالہ بچی کا نکاح پڑھا دیا ۔
کیا میری اجازت کے بغیر اور میری بیوی کی رضامندی کے بغیر میری دو سالہ بیٹی کا نکاح ہو گیا ؟ اگر یہ نکاح ہو گیا ہے تو اس کے ختم کرنے کی کیا صورت ہے ؟
نابالغ کے نکاح کے لیے شریعت نے ولی کی اجازت کو لازم قرار دیا ہےاور والد کی حیات میں والد ہی چونکہ اپنی نابالغ اولاد کا ولی ہوتا ہے،اس کی اجازت کے بغیر نا بالغ اولاد کا نکاح کرانے کا کسی کو اختیار نہیں ہوتا، بلکہ ایسا نکاح شرعا منعقد ہی نہیں ہوتا، لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے سسرال والوں نے سائل کی دو سالہ بیٹی کا جو نکاح کرایا ہے، وہ شرعا منعقد ہی نہیں ہوا، لہذا اسے ختم کرانے کی بھی ضرورت نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والولاية تنفيذ القول على الغير) تثبت بأربع: قرابة، وملك، وولاء، وإمامة ... (وهو) أي الولي (شرط) صحة (نكاح صغير ومجنون ورقيق) لا مكلفة."
(کتاب النکاح، باب الولي، ج:3، ص:55، ط: سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"قوله ويجوز نكاح الصغير والصغيرة إذا زوجهما الولي."
(کتاب النکاح، باب الأولياء والأكفاء، ج:3، ص:274، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100880
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن