بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرس کو منع کرنے کے باوجود تدریس کا منصب سونپنا


سوال

اگر ایک مدرس کوئی کتاب کے پڑھانے سے معذرت کردےاورمدرسہ کے ذمہ دار سے کہہ دے کہ بچوں کا نقصان ہوگا،لیکن مہتمم پھر بھی اصرار کرکے وہ گھنٹہ اس کےحوالےکردے ،توبچوں کے نقصان کی صورت میں مدرس عند اللہ یا عند الناس ماخوذ ہوگا ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر مدرس کسی  عذر کی وجہ سے کوئی کتاب پڑھانے سے معذرت کردے  کہ مذکورہ کتاب پڑھانے کی قابلیت کی کمی ہےتو مہتمم کے لیے پھر بھی اصرار کرکے اس کو سبق دینا مناسب  نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں جب وہ اس کتاب کا حق ادا نہیں کرپائیں گے تو طلباء کی حق تلفی ہوگی ،لیکن اگر ایک مرتبہ سبق لے لینے کے بعد اس میں کوتاہی کرے گاتو اس کوتاہی کا ذمہ دار مدرس ہوگا،مہتمم کو کوتاہی معلوم ہونے کے بعداس سبق کی متبادل صورت بنانی چاہیے،اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گاتب وہ بھی اس کوتاہی کا ذمہ دار ہوگا۔

واضح رہے کہ یہ مذکورہ سوال کا اصولی جواب ہے،اگر کسی خاص واقعہ کے متعلق سوال کرنا ہےتو سوال کی مکمل نوعیت واضح کرکے دوبارہ استفسار فرمائیں۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"المدرس إذا لم يكن صالحا للتدريس لم يحل له تناول المعلوم اهـ والذي يظهر في تعريف أهلية ‌التدريس أنها بمعرفة منطوق الكلام، ومفهومه وبمعرفة المفاهيم، وأن يكون له سابقة اشتغال على المشايخ، بحيث صار يعرف الإصطلاحات، ويقدر على أخذ المسائل من الكتب وأن يكون له قدرة على أن يسأل ويجيب إذا سئل ويتوقف ذلك على سابقة اشتغال في النحو والصرف بحيث صار يعرف الفاعل من المفعول وغير ذلك، وإذا قرأ لا يلحن وإذا قرأ لاحن بحضرته رد عليه."

(ص:٤٤١،ج:٥،کتاب القضاء،مطلب في جعل المرأة شاهدة في الوقف،ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102484

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں