میرے پاؤں کے ناخن بڑے ہیں ، لیکن ہیں صاف، تو کیا ان سے غسل ہو جاتا ہے کہ نہیں؟
واضح رہے کہ ناخن کاٹنا اُن اعمال میں سے ہے جن کو فطرتِ سلیمہ کے تقاضوں میں شمار کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص اَحکام ہیں: ختنہ ، زیرِ ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ 40روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام جمعہ کی نماز میں جانے سے پہلے ناخن تراش لیا کرتے تھے ، لہٰذا ناخن کاٹنے کے حوالے سے مسنون ہے کہ ہر جمعہ کے دن ناخن خاٹ لیے جائیں یا ہر جمعہ کسی وجہ سے نہ کاٹ سکیں تو پورے ہفتے میں کسی بھی دن کاٹ لیے جائیں ، ورنہ پندرہ دن میں کاٹ لیے جائیں اور نہ کاٹنے کی زیادہ سے زیادہ حد 40 دن ہیں کہ چالیس دن تک ناخن نہ کاٹنا مکروہ تحریمی ہے۔
ناخن صاف ہونے کی صورت میں غسل اور وضو ہوجاتا ہے، تاہم اگر ناخن اس قدر لمبے ہوں کہ ناخن کے نچلے حصے کو پانی نہ پہنچ پاتا ہو تو اس صورت میں اس حصے کو پانی پہنچانا لازم ہے۔
صحيح بخاری میں ہے:
"عن ابن عمر رضي الله عنهما:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (من الفطرة: حلق العانة، وتقليم الأظفار، وقص الشارب)."
(كتاب اللباس، باب: تقليم الأظفار، ج: 5، ص: 2209، ط: دار ابن كثير)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين.
(قوله وكره تركه) أي تحريما لقول المجتبى ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك روى مسلم عن أنس بن مالك "وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة" وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع."
(كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء وغيره، ج: 6، ص: 406، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ذكر الشيخ الإمام الزاهد أبو نصر الصفار في شرحه أن الظفر إذا كان طويلا بحيث يستر رأس الأنملة يجب إيصال الماء إلى ما تحته وإن كان قصيرا لا يجب. كذا في المحيط.
"ولو طالت أظفاره حتى خرجت عن رءوس الأصابع وجب غسلها قولا واحدا. كذا في فتح القدير.
وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلا عن الجامع الأصغر."
(کتاب الطهارت، الباب الأول، الفصل الأول ، ج: 1، ص: 4، ط: دار الفكر)
وفيه ايضا:
"والعجين في الظفر يمنع تمام الاغتسال والوسخ والدرن لا يمنع والقروي والمدني سواء والتراب والطين في الظفر لا يمنع والصرام والصباغ ما في ظفرهما يمنع تمام الاغتسال وقيل كل ذلك يجزيهم للحرج والضرورة، ومواضع الضرورة مستثناة عن قواعد الشرع. كذا في الظهيرية."
(کتاب الطهارت، الباب الثاني، الفصل الأول ، ج: 1، ص: 13، ط: دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144607101952
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن