بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نام رکھنے میں کن چیزوں کی رعایت رکھنی چاہیے؟


سوال

 پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ نام رکھتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے اور کس طرح سے نام رکھنا چاہیے اور اگر پہلے ایک نام رکھ دیا ہو اور وہ بچہ فوت ہو گیا ہو تو اسی نام کو دوبارہ رکھنے میں کوئی ممانعت ؟

جواب

 شریعتِ مطہرہ نے بچوں کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا ،   نام کے اچھا اور بامعنی ہونے کا انسان کی شخصیت پر  اثر پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا نام رکھتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ نام اچھا اور بامعنیٰ ہو اور انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا دیگر اللہ کے نیک بندوں کے نام پر نام رکھا جائے تو یہ باعثِ برکت اور خیر ہے۔

نیز فوت شدہ بچے  کے نام  کا معنی ومفہوم درست ہو تو  دوسرے  بچے کا بھی وہی  نام رکھ سکتے ہیں، فوت شدہ بچے کے نام پر نام رکھنے کی ممانعت نہیں ہے۔

صحيح بخاری میں ہے:

"وعن أبي أسامة قال قال هشام بن عروة فأخبرني أبي قال لما قتل الذين ببئر معونة وأسر عمرو بن أمية الضمري قال له عامر بن الطفيل من هذا فأشار إلى قتيل فقال له عمرو بن أمية هذا عامر بن فهيرة فقال لقد رأيته بعد ما قتل رفع إلى السماء حتى إني لأنظر إلى السماء بينه وبين الأرض ثم وضع فأتى النبي صلى الله عليه وسلم خبرهم فنعاهم فقال إن أصحابكم قد أصيبوا وإنهم قد سألوا ربهم فقالوا ربنا أخبر عنا إخواننا بما رضينا عنك ورضيت عنا فأخبرهم عنهم وأصيب يومئذ فيهم عروة بن أسماء بن الصلت فسمي عروة به ومنذر بن عمرو سمي به منذرا."

  ( باب غزوة الرجيع، ج: ۵، صفحہ: ۱۰۶، ط: دارطوق النجاة)

شرح النووی میں ہے:

"في الحديثين الآخرين أن النبي صلى الله عليه وسلم غير اسم برة بنت أبي سلمة وبرة بنت جحش فسماهما زينب وزينب وقال لاتزكوا أنفسكم الله أعلم بأهل البر منكم معنى هذه الأحاديث تغيير الاسم القبيح أو المكروه إلى حسن وقد ثبت أحاديث بتغييره صلى الله عليه وسلم أسماء جماعة كثيرين من الصحابة."

(كتاب الاداب، باب استحباب تغير الاسم القبيح إلى حسن ، ج: ۱۴، صفحه: ۱۲۰، ط: دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں