میری بڑی بہن اور چھوٹے بھائی میں قیامت کے آنے پر بحث چھڑ گئی، بہن کا کہنا تھا کہ قیامت بس قریب ہے بھائی نے کہا کہ نبی عالم الغیب نہیں، نبی کو بھی معلوم نہیں تھا، بحث اتنی بڑھی کہ بہن نے کہا کہ نبی نے ساری پیشن گوئیاں تو فرمائی تھیں،تو پھر تو کیسے کہہ رہا ہے کہ نبی کو نہیں پتہ ، دونوں ہی بے ادبی سے نبی نبی کر کے بات کر رہے تھے، مقصد بے ادبی نہ تھا دونوں کے دل میں نبی کی عظمت تھی، اسی دوران دوسری بہن نے بھائی سےغصے میں اس طرح کا جملہ بولا کہ "تیرے کہنے کا مطلب ہے کہ نبی نےنعوذباللہ بکواس کی" یہ جملہ 3 بارنعوذ باللہ کے ساتھ دہرایا، میں نے متنبہ کیاکہ اندازہ ہے کیا کہا ہے؟ تووہ جواب دینے لگی کہ مجھے پتہ ہے کہ میں نے کیا کہا ہے۔
اب اس سارے واقعہ میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تو حق پر ہی مان رہی تھی اور ان کے علم پر ہی دلیل دینا چاہ رہی تھی، مگر طریقہ کلام انتہائی بے ادبی کا تھا جس سے مجھے یہ خدشہ ہوا کہ کہیں اس کا ایمان تو خراب نہیں ہو گیا؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی بہن نے بحث و مباحثہ کے دوران بولے گئے خط کشیدہ جملہ "تیرے کہنے کا مطلب ہے کہ نبی نےنعوذباللہ بکواس کی" میں اگر واقعۃً "نعوذباللہ " ساتھ بولاتھا، نیز اس کے دل میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے کسی قسم کی تحقیر یا استخفاف کا شائبہ بھی موجود نہ تھا تو اُس کا ایمان باقی ہے، کیوں کہ عرف میں لفظ "نعوذباللہ" کسی ناشائستہ کلام اور کفریہ بات کے ساتھ اُس وقت استعمال کیاجاتا ہےجبکہ متعلقہ کلام و گفتگو سے براءت کا اظہار مقصود ہو،تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاتذکرہ کرتے ہوئے اس قسم کا غیرمحتاط رویہ اپنانا ایمانی غیرت و حمیت اور شرم وحیاء کے منافی ہے، لہذا اس پر توبہ واستغفار کرنااور آئندہ کے لیے احتیاط کرنا لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اهـ والذي تحرر أنه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اهـ كلام البحر باختصار."
(كتاب الجهاد، باب المرتد،ج:4، ص:224، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو قال للنبي - عليه الصلاة والسلام -: ذلك الرجل قال كذا وكذا فقد قيل أنه يكفر."
(كتاب السير، الباب التاسع في أحكام المرتدين، ج:2، ص:264، ط:دارالفكر)
باقی سائلہ کی بہن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےبیان کردہ قیامت کی پیشن گوئیوں کو لے کر یہ کہنا کہ انہیں قیامت کا علم تھا، اگر اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت آئے گی اور اس کا زمانہ قریب ہے تو یہ بات صحیح ہے ، اور اگر یہ مراد ہے کہ قیامت کس دن آئے گی یہ معلوم ہے تو یہ سراسر قرآن و حدیث سے ثابت اہل سنت والجماعت کےمتفقہ عقیدہ کے منافی ہے،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر نبی کریم صلی اللہ کی زبانی صراحتاً پیغام پہنچادیا ہے کہ قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔
سورۃ الاعراف میں ہے:
" يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ ."
ترجمہ: "یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا آپ فرمادیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے۔"
(بیان القرآن، ج:2، ص:72، ط:مکتبہ رحمانیہ)
سورۃ النازعات میں ہے:
"يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا - فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذِكْرَاهَا - إِلَىٰ رَبِّكَ مُنْتَهَاهَا ."
ترجمہ:" یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا سو اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق اس (کے علم کی تعیین) کا مدار صرف آپ کے رب کی طرف ہے۔"
(بیان القرآن، ج:3، ص:629، ط:مکتبہ رحمانیہ)
حضرت تھانویؒ تفسیر بیان القرآن میں رقمطراز ہیں:
" اس آیت سے اور حدیث:"ماالمسئول عنها بأعلم من السائل."(رواه الشيخان)سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تعیین و تفصیل کے ساتھ قیامت کی اطلاع آپ سے بھی مخفی تھی۔"
(تفسیربیان القرآن،سورۃ الاعراف، آیت نمبر:187،ج:2، ص:73، ط:مکتبہ رحمانیہ)
اوراللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخلوقات میں مغیبات(غیب کی معلومات) سب سے زیادہ دی گئیں تھی، لیکن اُس کے باوجود آپ عالم الغیب نہیں ہیں، لہذا قیامت کی جو نشانیاں اور پیشن گوئیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بیان کی گئیں ہیں ،آپ کواس کا علم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیاگیاتھا۔
کفایت المفتی میں ہے:
"علمِ غیب حضرت حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق تعالیٰ نے اس قدر مغیبات کا علم عطا فرمادیا تھا کہ ہم اس کا احصار نہیں کرسکتے۔ اور ہمارا عقیدہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم حضرتِ حق تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ ہے، مگر باوجود اس کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے؛ کیوں کہ علمِ غیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ بغیر واسطہ حواس اور بغیر کسی کے بتائے ہوئے حاصل ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام علم حضرتِ حق تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہوا ہے۔ وہ حقیقتًا علمِ غیب ہے اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنا درست۔"
(کتاب العقائد، جلد:1، صفحہ: 165، طبع: دار الاشاعت)
علم الغیب کے موضوع پر مزید تفصیل مندرجہ لنک پر موجود فتوی میں ملاحظہ کیجئے:
کیاانبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے پاس علم غیب تھا؟
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101317
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن