نابالغ بچوں کا اپنے ہی مال میں سے صدقہ کرنا کیسا ہے؟
نابالغ بچہ صدقہ کرنے کا اہل نہیں ہے۔اگر نابالغ اپنا مال صدقہ کرے گا تو مال صدقہ نہ ہوگا اور کسی کے لیے لینا جائز نہ ہوگا اوراگر کسی نے لے لیا تو اس پر نابالغ کا مال اسے واپس کرنا واجب ہوگا۔البتہ اگر نابالغ صدقہ یا ہدیہ لائے اور غالب گمان ہو کہ اسے کسی نے دے کر بھیجا ہے اور بچہ اپنی بات میں سچا ہے تو و ہ چیز قبول کرنا جائز ہوگا ،اسی طریقے سے اگر اولیاء بچوں کو عادت ڈالنے کے لیے اپنا مال بطور وکیل کے دیں اور پھر انہیں صدقہ کرنے کا کہیں اور بچہ صدقہ کردے تو جائز ہے کیونکہ ولی کا مال ہے اور بچہ محض نائب اور وکیل ہے لیکن اگر بچے کو اس کا اپنا مال صدقہ کرنے کا کہنا توبچے کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ.
{رد المحتار}
(قوله والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة قهستاني (قوله وإن ضارا) أي من كل وجه أي ضررا دنيويا، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعا لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولا يضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني (قوله لا وإن أذن به وليهما) لاشتراط الأهلية الكاملة."
(كتاب المأذون، مبحث في تصرف الصبي ومن له الولاية عليه وترتيبها، ج:6، ص:173، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101731
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن