بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ سے روزے کی حالت میں لواطت کرنا


سوال

رمضان کی حالت میں نابالغ لڑکے کے ساتھ لواطت کرنا  اب اس کا کفارہ اور قضا کیا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ لواطت کرنا گناہ کبیرہ ہے، اور اس قبیح فعل پر اللہ رب العزت نے قومِ لوط کو ہلاک کردیا تھا، نیز یہ قبیح فعل اللہ کی رحمت سے دوری کا باعث ہے، جیساکہ 'جا مع  الترمذی' میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص پر نظر(رحمت) نہیں فرماتا جو کسی مرد یا عورت کے پچھلے شرم گاہ کے راستہ میں جماع کرے ،بعض روایات میں اس قابلِ لعنت فعل کی بہت سخت سزائیں وارد ہوئی ہیں ،لہذا اس قبیح فعل سے فوری توبہ کرنا ضروری ہے، ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگی۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر کسی روزے دار نے نابالغ لڑکے کے ساتھ بد فعلی  (پاخانہ کی جگہ  )  میں  دخول کیا تھا، اور عضو مخصوص کی سپاری اندر چلی گئی تھی،  تو روزہ فاسد ہوگیا، خواہ منی نکلی ہو یا نہ نکلی ہو، بہر صورت ایسے فاعل روزے دار پر قضا و کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔کفارے  میں اس پر مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے۔

اور اگر بدفعلی سے مراد  دخول کے بغیر  نا بالغ  لڑکے  سے لذت کے ساتھ انزال کرناہے،  تو بھی روزہ فاسد ہوگیا، اور سخت گناہ ہوا، لہٰذا توبہ وا ستغفار کرے اور ایک روزے کی قضا کرے، اس صورت میں کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

جا مع الترمذی میں ہے:

"عن كريب، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لا ‌ينظر الله إلى ‌رجل أتى رجلا أو امرأة في الدبر» هذا حديث حسن غريب. وروى وكيع هذا الحديث."

(أبواب الرضاع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، 460/3، شركة مكتبة ومطبعة)

ھدایہ میں ہے:

"ومن ‌جامع فيما ‌دون ‌الفرج فأنزل فعليه القضاء " لوجود الجماع معنى " ولا كفارة عليه " لانعدامه صورة."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يوجب القضاء والكفارة، 122/1، ط: دار احياء التراث العربي)

العنایہ فی شرح الھدایہ میں ہے:

"(ومن ‌جامع فيما ‌دون ‌الفرج فأنزل فعليه القضاء إلخ) أراد بالفرج القبل والدبر فكان ما دونه هو التفخيذ والتبطين والجماع فيه جماع معنى فأوجب القضاء وليس به صورة فلا كفارة عليه."

(كتاب الصوم، باب ما يوجب القضاء والكفارة، 241/2، ط: دار الفکر)

الردالمحتار مع در مختارمیں ہے:

"(وإن ‌جامع) المكلف آدميا مشتهى (‌في ‌رمضان ‌أداء) لما مر (أو ‌جامع) أو توارت الحشفة (في أحد السبيلين) أنزل أو لاا... (عمدا)... (قضى)... (وكفر)."

"(قوله: أو ‌جامع) يشمل ما لو جامعها زوجها الصغير كما هو مقتضى إطلاقهم ولتصريحهم بوجوب الغسل عليها دونه.

(قوله: في أحد السبيلين) أي القبل أو الدبر وهو الصحيح في الدبر والمختار أنه بالاتفاق ولوالجية لتكامل الجناية لقضاء الشهوة بحر.

(قوله: أنزل أو لا) فإن الإنزال شبع وقضاء الشهوة يتحقق بدونه وقد وجب به الحد وهو عقوبة محضة فالكفارة التي فيها معنى العبادة."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج: 2، ص: 409۔411، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله وكفر).....(ككفارة المظاهر)."

"مطلب في الكفارة (قوله: ككفارة المظاهر) مرتبط بقوله وكفر أي مثلها في الترتيب فيعتق أولا فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينا لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة فلو أفطر ولو لعذر استأنف إلا لعذر الحيض."

(‌‌كتاب الصوم، ‌‌باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، 412،411/2، ط: سعید)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"فإن ‌غداهم وعشاهم وأشبعهم جاز سواء حصل الشبع بالقليل أو الكثير كذا في شرح النقاية لأبي المكارم.

لو غدى ستين وعشى ستين غيرهم لا يجزيه إلا أن يعيد على أحد الستينين منهم غداء وعشاء كذا في التبيين."

(كتاب الطلاق، الباب العاشر في الكفارة، 514/1، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وهی نصف صاع من بر او صاع من شعیر او تمر."

(كتاب الزكاة، الباب الثامن في صدقة الفطر، ط: 191/1، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں