بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ شاگرد سے ہدیہ قبول کرنے کا حکم


سوال

نا بالغ شاگرد سے ہدیہ قبول کرنے کا حکم؟

جواب

نابالغ بچے کا کسی کو اپنے مال میں سے ہدیہ دینا شرعا درست نہیں، اس لیے کہ اپنے مال میں اس طرح کا تصرف صحیح ہونے کے لیے بالغ ہونا شرط ہے، لہٰذا کسی بھی نابالغ بچے سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ شاگرد ہو یا نہ ہو۔البتہ اگر والدین اپنے نابالغ بچے کو اپنا مال دے کر کہیں کہ یہ ہدیہ فلاں شخص (مثلاً استاد) کو دے آؤ تو ایسی صورت میں اس ہدیے کا قبول کرنا جائز ہوگا۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ.

(قوله: والاتهاب) أي قبول الهبة وقبضها وكذا الصدقة، قهستاني (قوله: وإن ضاراً) أي من كل وجه أي ضرراً دنيوياً، وإن كان فيه نفع أخروي كالصدقة والقرض (قوله: كالطلاق والعتاق) ولو على مال فإنهما وضعاً لإزالة الملك وهي ضرر محض، ولايضر سقوط النفقة بالأول وحصول الثواب بالثاني، وغير ذلك مما لم يوضعا له إذ الاعتبار للوضع، وكذا الهبة والصدقة وغيرهما قهستاني".

(كتاب المأذون، ج:6، ص:173، ط:سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں