بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نابالغ ورثاء کی موجودگی میں ترکہ کا مکان فروخت کرکے دوسرا مکان خریدنے کا حکم


سوال

 1۔1995ء میں ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، ورثاء میں والدہ، تین بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں، جب کہ بیوہ اور والدکا انتقال پہلے ہو چکا تھا۔

2۔پھر ہمارے غیر شادی شدہ بھائی کا انتقال ہوا، ورثاء میں دادی،  دو بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔

والد صاحب کا جب انتقال ہوا تو میں پندرہ سال کا تھا، اور واحد گھر کا کفیل تھا، میں نے سب بہن بھائیوں کی پرورش کی، انہیں پڑھایا اور استطاعت کے مطابق ان کی ہر چیز کا خیال رکھا، سب کی شادیاں کروائیں۔ والد صاحب کا  کچی آبادی میں ایک مکان تھا، میں نے اسے ایک لاکھ روپے میں فروخت کیا اور مزید دو لاکھ روپے ملا کر دوسرا مکان خریدا تھا، اس وقت دو بہنیں شادی شدہ تھیں، اور باقی بہن بھائی نابالغ تھے، شادی شدہ بہنیں اس پر راضی  تھیں، اور نابالغ بہن بھائیوں نے بلوغت کے بعد فروختگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ سب راضی تھے۔مذکورہ مکان کی قیمت  64 لاکھ روپے ہے، بہن بھائی کہتے ہیں کہ ہمیں حصہ دو، بہنیں چار چار لاکھ روپے مانگ رہی ہیں اور بھائی آدھا مکان مانگ رہا ہے۔

اب  پوچھنا یہ ہے کہ  مذکورہ مکان کس طرح تقسیم ہوگا؟ اور اس میں سب بہن بھائیوں کا کتنا حصہ ہوگا؟  

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے والد مرحوم  کے مکان میں سے نابالغ بہن بھائیوں کا حصہ فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، اس لیے نابالغوں  کے حصے میں عقد ان کے بالغ ہونےکے بعد ان کی اجازت پر موقوف تھا،لیکن چوں کہ نابالغوں نے بالغ ہونے کے بعد اپنے حصے کی فروختگی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، اس لیے ان کے حصے میں بھی بیع شرعاً درست ہوگئی تھی۔  پھر  سائل نے والدمرحوم کے مکان کی قیمت ایک  لاکھ روپے کے ساتھ ذاتی رقم سے  مزید دو  لاکھ روپے ملا کر دوسرا مکان خریدا لیا تھا، اور دوسرے مکان  کی مجموعی رقم میں ایک تہائی رقم چوں کہ تمام ورثاء کی ہے اور دوتہائی رقم سائل کی ہے اس لیے دوسرے مکان کے ایک تہائی میں تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کےحق دار ہیں، اور دوتہائی سائل کی ملکیت ہے، ان میں دیگر ورثاء کا شرعاً کوئی حق نہیں ہے۔

مذکورہ مکان کے ایک تہائی حصہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ سے  حقوقِ متقدمہ  یعنی مرحوم  کی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر  قرض ہو ، تو اس كو ادا كرنے كے بعد، اگر کوئی  جائز وصیت کی ہو،  تو  اُسے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے  بعد ،باقی   کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو432 حصوں میں تقسیم کرکے 82 حصے مرحوم کی والدہ (سائل کی دادی) کو، 70، 70 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 35، 35 حصے ہر ایک بیٹی  کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے :

میت (سائل کا والد): 6/ 72 /432 

والدہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
15
12101010555555
72فوت شدہ6060303030303030

میت(سائل کا بھائی) : 6/ 12/ 6۔۔۔۔۔۔مف 10/ 5

دادیبھائیبھائیبہنبہنبہنبہنبہنبہن
15
222111111
101010555555

یعنی فیصد کے تناسب سے ٪18.98 مرحوم کی والدہ (سائل کی دادی) کو، ٪16.20 مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور ٪ 8.10 مرحوم کی بیٹی کو ملے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وله مجيز) أي لهذا التصرف من يقدر على إجازته (حال وقوعه انعقد موقوفا) وما لا يجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا."

وفيه ايضا :

"وفي أحكام الصغار للأسروشني من مسائل النكاح عن فوائد صاحب المحيط: صبية زوجت نفسها من كفء وهي تعقل النكاح ولا ولي لها فالعقد يتوقف على إجازة القاضي؛ فإن كانت في موضع لم يكن فيه قاض، إن كان ذلك الموضع تحت ولاية قاضي تلك البلدة ينعقد ويتوقف على إجازة ذلك القاضي وإلا فلا ينعقد، وقال بعض المتأخرين: ينعقد ويتوقف على إجازتها بعد البلوغ. اهـ. فهذا صريح في أن من ليس له ولي أو وصي خاص وكان تحت ولاية قاض فتصرفه موقوف على إجازة ذلك القاضي أو إجازته بعد بلوغه، وهذا إذا كان تصرفا يقبل الإجازة احترازا عما إذا طلق أو أعتق كما يأتي، وقد حررنا هذه المسألة قبيل كتاب الغصب من كتابنا تنقيح الفتاوى الحامدية فارجع إليه فإن فيه فوائد سنية."

(کتاب البیوع، باب الفضولي، ج : 5، ص : 106/07، ط : سعید)

وفيه ايضا :

"قلت: وهذا لو البائع وصيا لا من قبل أم أو أخ فإنهما لا يملكان بيع العقار مطلقا ولا شراء غير طعام وكسوة، ولو البائع أبا فإن محمودا عند الناس أو مستور الحال يجوز ابن كمال."

وفيه ايضا :

"الولاية في مال الصغير للأب ثم وصيه ثم وصي وصيه ولو بعد، فلو مات الأب ولم يوص فالولاية لأبي الأب ثم وصيه ثم وصي وصيه فإن لم يكن فللقاضي ومنصوبه".

(كتاب الوصايا، باب الوصي، ج : 6، ص : 711/14، ط : سعيد)

دررالحکام میں ہے :

"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما."

(‌الفصل الثاني ،‌‌المادة : 1073 تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك، 3، ص : 26، ط : دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101838

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں