بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ولی یا بزرگ کی قبر پر جاکر ان سے دعاء کا کہنے والے شخص کی اقتداء کا حکم


سوال

جس کا یہ عقیدہ ہوکہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک یا کسی ولی کے قبر پر جاکر وہاں پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یا ولی سے یوں سوال کریں کہ آپ میرے لئے اللہ تعالی سے دعا مانگیں کہ اللہ تعالی مجھے اولاد دے دیں یا فلاں مشکل حل کریں، کیا اس طرح نبی یا ولی سے دعا مانگنا جائز ہے اگر جائز نہیں  تو اس طرح دعا مانگنے والے کی اقتدا میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہےکہ اہلسنت والجماعت کاانبیاء کے بارے میں متفقہ عقیدہ  ہے کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور سنتے ہیں ، اس لیے اگر کوئی شخص حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضر ہوکرآپ علیہ السلام سے اپنے لیےاللہ تعالی سے دعا کی درخواست کرے تو یہ مستحب ہے،رہی یہ بات کہ  کسی بزرگ یا ولی کے مزار پر جاکر ان سے دعا کی درخواست کرنا  جائز ہے یا نہیں ؟ جوحضرات سماع موتی  کے قائل ہیں ان کے نزدیک ممنوعیت کی کوئی وجہ نہیں اور جو قائل نہیں ہیں ان کے نزدیک ایسے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ،لہذا گر کوئی شخص کسی ولی یا بزرگ کے مزار پر جاکر اللہ تعالی سے دعا کی درخواست کرے تو ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔

اختلاف امت اور صراط مستقیم میں ہے :

’’ انبیاء کرام علیہم السلام خصوصا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  میرا عقیدہ " حیات النبی " کا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضر ہو کر صلوٰۃ وسلام پڑھنے اور شفاعت کی درخواست کا مسئلہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے ، اس لیے جس سعادت مندکو بارگاہ نبوت کے آستانۂ عالیہ پر حاضری نصیب ہو وہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دعا اور شفاعت کے لیے درخواست کرے تو میں اسے جائز بلکہ مستحسن سمجھتا ہوں ۔‘‘

(حصہ اول ، ص : 60/61/62،ط: مکتبہ بینات )

فتاوی رشیدیہ میں  ایک سوال کے جواب میں ہے :

’’قبر کے پا س جا کر کہے کہ اے فلاں تم میرے واسطے دعا کرو کہ حق تعالی میرا کام کردیوے اس میں اختلاف علماء کا ہے ،مجوز سماع موتی اس کے جواز کے مقر ہیں اور مانعین سماع منع کرتے ہیں سو اس کا فیصلہ اب کرنا محال ہے ، مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو خلاف نہیں اسی وجہ سے ان کومستثنی کیاہے اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت زیارت قبر مبارک شفاعت مغفرت کا عرض  کرنا لکھا ہے پس جواز کے  واسطےیہ کافی ہے ۔‘‘

(کتاب العلم ، ص: 152، ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام )

خیرالفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں ہے :

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضر ہو کر یہ عرض کرنا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعاء مغفرت فرمادیں اور میری شفاعت فرمادیں اب بھی جائز اور مستحب ہے ، اس کا انکار جمہور اہلسنت کے خلاف ہے اور اس کا انکار کیسے صحیح ہوسکتا ہے جب کہ خیرالقرون سے اس کاثبوت ہے کسی سے نکیر منقول نہیں ہے ۔۔۔رہا یہ مسئلہ کہ پیغمبر خدا کی طرح بزرگوں کے مزارات پر جاکر دعا کرنا جائز ہے یا نہیں ، تو ظاہر ہے کہ جوسماع کے قائل ہیں ان کے نزدیک ممنوعیت کی کوئی وجہ نہیں اور جو قائل نہیں ہیں ان کے نزدیک ایسے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ، البتہ اگر لوگ اس میں غلو کرنے لگ جائیں اور اعتدال سے ہٹ جائیں تو علی الاطلاق ممنوع بھی قراردیا جاسکتا ہے ۔‘‘

(سوال : روضۂ اطہر پر استغفار کے بارے میں ، ج:1، ص: 159،ط: امدادیہ)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144408101500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں