بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

غیر متعین اُجرت پر نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ زمین کسی کو فروخت کرنے کےلیے دینے کی شرعی حیثیت


سوال

ایک شخص نے اپنے ذاتی سرمایہ 30 لاکھ روپے سے زمین خریدی، اور اپنے ایک دوست کو اپنے ساتھ اس میں اس طور پر شریک کیا کہ اس کو آگے فروخت کرنے اور اس کےتمام مسائل کے حل کرنے کی ذمّہ داری اس پر ہوگی، اور نفع نقصان میں دونوں شریک ہوں گے، تو آیا شریعت کی رو سے اس طرح کی شراکت داری درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جب خود اپنا ذاتی سرمایہ لگاکر  زمین خریدی، پھر اس میں اپنے ایک دوست کو اس طور پر شریک کیا کہ وہ اسے آگے فروخت کرے گا، اور اس عمل میں جتنی بھی ذمّہ داریاں ہوں گی وہ سب اس پر عائد ہوں گی، اور اسی طرح نفع و نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے تو شریعت کی رو سے یہ صورت شرکت کی نہیں ہے، بلکہ مضاربتِ فاسدہ کی صورت ہے، اس لیے کہ اوّلاً یہ معاملہ ایک جانب سےزمین اور دوسری جانب سے عمل کی صورت میں طے ہوا، ثانیاً دوسرے شخص کو نفع میں شریک کرنے کے ساتھ اس پر نقصان کی ذمّہ داری بھی عائد کرنے کی وجہ سے یہ معاملہ شرعًا فاسد و ناجائز ہوا، چناں چہ اب اگر دوسرا شخص وہ زمین فروخت کرکے اپنی ذمّہ داریاں ادا کرچکا ہے تو اس معاملہ کے فاسد ہونے کی وجہ سے جو بھی نفع ہوا ہے شرعًا وہ زمین کے مالک (یعنی سرمایہ دار) کو ملے گا، اور اگر کوئی نقصان ہوا ہے تو وہ بھی اسی کے ذمّہ ہوگا، اور نفع و نقصان دونوں صورتوں میں دوسرے شخص کو  اُجرتِ مثل (یعنی  اس طرح کے کام پر ایسے شخص کی عرف و رواج میں جو اُجرت ہوتی ہے وہ) ملے گی۔

تاہم اگر زمین فروخت نہیں ہوئی تو اس معاملہ کو ختم کرنا ضروری ہوگا، پھر اگر زمین کا مالک مذکورہ زمین اپنے اسی دوست کے ذریعے فروخت کروانا چاہتا ہے تو اس کی جائز صورت یہ ہوگی کہ وہ اپنے اس دوست کو زمین کی فروختگی کےلیے اُجرت طے کرکے ساتھ ملازمت پر رکھ لے، اور نفع و نقصان کی ذمّہ داری خود اپنے ذمّہ لے، اس پر عائد نہ کرے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(المضاربة) أما تفسيرها شرعا فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعة ولو شرط كله للمضارب كان قرضا هكذا في الكافي.....

وأما شرائطها الصحيحة فكثيرة كذا في النهاية. (منها) أن يكون رأس المال دراهم أو دنانير عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى وعند محمد - رحمه الله تعالى - أو فلوسا رائجة حتى إذا كان رأس مال المضاربة ما سوى الدراهم والدنانير والفلوس الرائجة لم تجز المضاربة إجماعا.....

(ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح كذا في المحيط.....

(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو أجير."

(كتاب المضاربة، الباب الأول في تفسير المضاربة وركنها وشرائطها وحكمها، ج:4، ص:285 تا 288، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(الفاسد) من العقود (ما كان مشروعا بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعا أصلا) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل بالاستعمال) لو المسمى معلوما ابن كمال.

وفي الرد: (قوله: وجوب أجر المثل) أي أجر شخص مماثل له في ذلك العمل، والاعتبار فيه لزمان الاستئجار ومكانه من جنس الدراهم والدنانير لا من جنس المسمى لو كان غيرهما، ولو اختلف أجر المثل بين الناس فالوسط والأجر ..... (قوله: لو المسمى معلوما) هذا إنما يصح لو زاد المصنف لا يتجاوز به المسمى كما فعل ابن الكمال تبعا للهداية والكنز، فكان على الشارح أن يقول إذا لم يكن مسمى أو لم يكن معلوما؛ لأن وجوب أجر المثل بالغا ما بلغ على ما أطلقه المصنف إنما يجب في هذين الصورتين أما لو علمت التسمية فلا يزاد على المسمى."

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:45، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)

و فيه أيضاً:

"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.

وفي الرد: (قوله: كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقدا منها فلو كانت كيليا أو وزنيا أو عدديا متقاربا فالشرط بيان القدر والصفة وكذا مكان الإيفاء لو له حمل ومؤنة عنده، وإلا فلا يحتاج إليه كبيان الأجل، ولو كانت ثيابا أو عروضا فالشرط بيان الأجل والقدر والصفة لو غير مشار إليها، ولو كانت حيوانا فلا يجوز إلا أن يكون معينا بحر ملخصا."

(كتاب الإجارة، شروط الإجارة، ج:6، ص:5، ط:ايج ايم سعيد كراتشي)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144602101211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں