بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کا شرعی حکم


سوال

میر ی بیوی جس کی عمر تقریباً30سال ہے، وہ جب بھی اپنے والدین کی طرف جاتی ہے ، وہاں اپنے بھائیوں سے جوکہ شادی شدہ ہیں ، ان سے گلے ملتی ، اور سینے سے لگا کر بو سہ دیتی ، اور وہ بھی  میری بیوی کو بوسہ دیتے ہیں ، میں نے کئی بار اپنی بیوی کو سمجھایا کہ جوان بہن کسی صورت اپنے جوان بھائیوں کوگلے لگا کر بوسہ نہیں دے سکتی ، مگر میرے بار بار منع کر نے کے باوجود وہ باز نہیں آ رہی ، اور زبان درازی لڑائی جھگڑےاور بد تمیزی پر اتر آتی ہے، میں نے مختلف اسکالرز اور مذہبی رہنماؤں سے اس معاملہ پر بات کی، اور سب کی متفقہ رائے تھی کہ ایسا کرنا گناہ اور ناجائز اور حرام ہے،  جب میں بیوی کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ،  وہ میری بات کو سننا بھی گوارہ نہیں کرتی ، اور اپنے ماں،باپ اور بھائیوں کو اپنےساتھ ملالیتی ہے، اور وہ بھی مجھے برا بھلا کہتے ہیں اور ناجائز کاموں میں اپنی بہن، بیٹی کو سپورٹ کرتے ہیں،اس کے علاوہ بھی میری بیوی میری بہت بڑی نافرمان ہے ، اور جھگڑالو ہے ،جس بات سے میں منع کروں وہ یا تو رکتی نہیں ہے ،یا پھر وہی کام چوری چھپے کرتی ہے ،ہمارے دو چھوٹے بچے ہیں، اور ان کی وجہ سے میں نے کتنی بار  اس کی ناجائز باتوں کو برداشت کیا ، مگر میر ی بیوی دن بدن limit سے نکل رہی ہے اور پورے گھر کا ماحول بیوی کی نافرمانی بدزبانی اور ناجائز کاموں کی وجہ سے خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے،میں نے شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی ہمیشہ بات کی مگر میری بیوی نہیں مانتی، لڑائی جھگڑا کر کے اپنے والدین کی سائیڈ لیتی ،اور ان کا کہنا مانتی ہے، ان کو گھر کی ہر بات بتاتی ہے، اور وہ سب ناجائز باتوں میں اپنی بیٹی کو سپورٹ کرتے ہیں  ، آپ سے گزارش ہے کہ ایسی بیوی کے لیے شریعت نے  کیا حکم دیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی خوشی ،غمی سفر سے واپسی کے موقع پر اگر شہوت کا اندیشہ نہ ہو تو بہن بھائی، والد ودیگر محارم رشتہ داروں سے معانقہ کرنا، یا بوسہ دینا فی نفسہ مباح عمل ہے ، البتہ اگر شہوت کا اندیشہ ہو ، تو اجتناب کرنا ضروری ہے ،تاہم محارم سے گلے ملتے ہوئے اس طور پر گلے ملنے سے اجتناب کرنا چاہیئے کہ جس میں تمام اعضاء ایک دوسرے سے مس ہوتے ہوں ، لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی اپنے والد یا بھائیوں سے ملاقات کے وقت اگر ان سے مصافحہ کرتی ہے، اور گلے ملتی ہے، یا ان کے ہاتھ یا سر پر بوسہ دیتی ہے،اور دونوں جانب شہوت کا اندیشہ بھی نہ ہو ، تو اس کے عمل کو ناجائز وخلاف شرع قرار نہیں دیا جاسکتا ، تاہم اگر شوہر( سائل) کو اس پر اعتر اض ہو ، اور وہ ایسے ملنے سے منع کرتا ہو ، تو بیوی کو شوہر کی اطاعت کرنی چاہیئے ۔ 

نیز شریعت مطہرہ نے جہاں مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا پابند  کیا ہے ، وہیں بیویوں کو بھی اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے ،پس   ازدواجی زندگی پرسُکون اور خوش گوار  بنانے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، صورت مسئولہ میں  اہلیہ پر لازم ہے  کہ  اپنے شوہر کی  اطاعت اور فرماں برداری کرے اور شوہر کی قدر ومنزلت پہچان کر اور اس کا لحاظ کرکے  اس کی  قدر کرے،طعن وتشنیع ،ملامت سے اجتناب کرے ،اور شوہر کے حقوق میں کسی قسم کی کمی کوتاہی نہ کرے، شوہر کے قدر ومنزلت کے بارے میں ارشاد نبوی ہے :(بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اور شوہر بھی اہلیہ کے حقوق کاخیال رکھے۔

 تاہم اگر   اہلیہ نافرمان بد زبان ہےتوشوہر کے لیے   قرآنِ کریم میں سورۂ نساء کی آیت  34 میں  اللہ تعالیٰ نے  اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے بھی ذکر فرمائے ہیں:

یعنی عورت اگر نافرمان ہے یا اس کی جانب سے نافرمانی کااندیشہ ہے، تو پہلا درجہ اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی  محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، قرآن کریم میں  "فِي المْضَاجِعِ" کا لفظ ہے، اس کامطلب  فقہاءِ کرام  نے  یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو،کمرہ اور مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو  کمرےیا مکان میں تنہا چھوڑ دے ،اس سےفساد بڑھنے کا اندیشہ   زیادہ ہے۔

اور جوعورت  اس سزا  سے بھی متاثر نہ ہو تو  تیسرے درجہ میں  اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔

چناں چہ بخاری شریف کی روایت میں ہے:

ـ"  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ؛ کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے، پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری  کرے"

 تاہم اگر اس کے باوجود بھی بیوی کا رویہ  درست نہ ہو ،تو    دونوں  خاندان کے بڑوں کو بٹھا کر معاملات سمجھانے کی کوشش کی جائے ،اور خاندان کے بڑے غلطی  کی نشاندہی کر کے  خطاوار  کو اپنی اصلاح کر نے پر آمادہ کریں  ۔لہذا زیر نظر مسئلہ میں شوہر  کو چاہیے کہ وہ درج بالا شرعی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے بیوی کی اصلاح کے لیے کوشش کرے،تاہم اس کے باوجود بھی بیوی اگرراہ راست پر نہ آئے اور میاں بیوی دونوں کے لیے ایک دوسرے کے شرعی حقوق پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتو آخری درجہ میں شوہرکیلئے  اپنی بیوی کو طلاق دینے کی گنجائش  ہوگی  اور طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو اس کی پاکی کے ایام میں صرف ایک طلاق دی جائے ،اس کے  ایک طلاق کے بعد اگر شوہر نے عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو بعد از عدت نکاح ختم ہو جائے گا۔

صحيح البخاري میں ہے :

"حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (‌أريت ‌النار فإذا أكثر أهلها النساء، يكفرن). قيل: أيكفرن بالله؟ قال: (يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر، ثم رأت منك شيئا، قالت: ما رأيت منك خيرا قط)."

 (کتاب الایمان ،باب کفران العشیر وکفر بعد کفر ،ج:1،ص: 19،ط:دار ابن كثير،دار اليمامة)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن ‌واهجروهن ‌في ‌المضاجع واضربوهن فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] يدل على أن عليها طاعته في نفسها وترك النشوز عليه.

وقد روي في حق الزوج على المرأة وحق المرأة عليه عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار بعضها مواطئ لما دل عليه الكتاب وبعضها زائد عليه، من ذلك ما حدثنا محمد بن بكر البصري قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي وغيره قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات فقال: "اتقوا الله في النساء فإنكم أخذتموهن بأمانة الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله، وإن لكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه فإن فعلن فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف". وروى ليث عن عبد الملك عن عطاء عن ابن عمر قال: جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله ما حق الزوج على الزوجة؟ فذكر فيها أشياء: "لا تصدق بشيء من بيته إلا بإذنه فإن فعلت كان له الأجر وعليها الوزر" فقالت: يا رسول الله ما حق الزوج على زوجته؟ قال: "لا تخرج من بيته إلا بإذنه ولا تصوم يوما إلا بإذنه". وروى مسعر عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خير النساء امرأة إذا نظرت إليها سرتك وإذا أمرتها أطاعتك وإذا غبت عنها حفظتك في مالك ونفسها."

(ج: 1، ص: 454، ط: دار الكتب العلمية)

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي."

( كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج: 2، ص: 792، ط؛ المكتب الإسلامي) 

ترجمہ:” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”(بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“

وفیہ ایضاً:

"هو خطاب للأزواج لما في نسق الآية من الدلالة عليه، وهو قوله: واهجروهن في المضاجع ، وقوله: وإن خفتم شقاق بينهما، الأولى أن يكون خطابا للحاكم الناظر بين الخصمين والمانع من التعدي والظلم وذلك; لأنه قد بين أمر الزوج وأمره بوعظها وتخويفها بالله ثم بهجرانها في المضجع إن لم تنزجر ثم بضربها إن أقامت على نشوزها، ثم لم يجعل بعد الضرب للزوج إلا المحاكمة إلى من ينصف المظلوم منهما من الظالم ويتوجه حكمه عليهما."

(ج: 2، ص: 238، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت ‌فنوعان ‌حسن ‌وأحسن ‌فالأحسن ‌أن ‌يطلق ‌امرأته ‌واحدة ‌رجعية ‌في ‌طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها."

(كتاب الطلاق، الباب الأول، الطلاق السني، ج: 1، ص: 348، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (‌إلى ‌الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته) وشهوتها أيضا.ذكره في الهداية

وإلا لا، لا إلى الظهر والبطن) خلافا للشافعي (والفخذ) وأصله قوله تعالى: * (ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن) * الآية وتلك المذكورات مواضع الزينة بخلاف الظهر ونحوه

(وماحل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها لانه عليه الصلاة والسلام كان يقبل رأس فاطمة وقال عليه الصلاة والسلام: من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلا يحل له النظر والمس."

(كتاب الحظر والإباحة، باب النظر والمس، ج: 6، ص: 367، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب، كذا في القنيه."

قال أبو جعفر - رحمه الله تعالى - سمعت الشيخ الإمام أبا بكر محمدا - رحمه الله تعالى - يقول: لا بأس بأن يغمز الرجل الرجل إلى الساق ويكره أن يغمز الفخذ ويمسه وراء الثوب ويقول: يغمز الرجل رجل والديه، ولا يغمز فخذ والديه والفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - يبيح أن يغمز الفخذ ويمسها وراء الثوب وغيرها، كذا في الغرائب. قال محمد - رحمه الله تعالى -: ويجوز له أن يسافر بها ويخلو بها يعني بمحارمه إذا أمن على نفسه، فإن علم أنه يشتهيها أو تشتهيه إن سافر بها أو خلا بها أو كان أكبر رأيه ذلك أو شك فلا يباح له ذلك، وإن احتاج إلى حملها وإنزالها في السفر فلا بأس بأن يأخذ بطنها وظهرها من وراء الثياب، فإن خاف الشهوة على نفسه أو عليها فليجتنب بجهده وذلك بأن يجتنب أصلا متى أمكنها الركوب والنزول بنفسها، وإن لم يمكنها ذلك تكلف المحرم في ذلك زيادة تكلف بالثياب حتى لا يصل إليه حرارة بدنها، وإن لم يمكنه ذلك تكلف المحرم لدفع الشهوة عن قلبه يعني لا يقصد بها فعل قضاء الشهوة، كذا في الذخيرة ... وكان محمد بن مقاتل الرازي - رحمه الله تعالى - يقول: لا ينظر إلى ما بين سرتها إلى ركبتها."

(كتاب الكراهية، باب مايحل للرجل النظر اليه ومالايحل، ج: 5، ص: 328، ط: دار الفكر)

اعلاء السنن  للعلامہ ظفر عثمانی ؒ  میں ہے:

"التقبيل والإعتناق قد يكونان علی وجه التحية، كالسلام والمصافحة، وهما اللذان نهي عنهما في الحديث؛ لأن مجرد لقاء المسلم إنما موجبه التحية فقط، فلما سأل سائل عنهما عند اللقاء فكأنه قال: إذا لقي الرجل أخاه أو صديقه فكيف يحييه؟ أيحييه بالانحناء والتقبيل والالتزام أم بالمصافحة فقط؟ فأجاب رسول الله صلي الله عليه وسلم بأن يحييه بالمصافحة  ولايحييه بالانحناء والتقبيل والإعتناق، فثبت أن التحية بهذه الأمور غير مشروعة، وإنما المشروع هو التحية بالسلام والمصافحة، وهو ما ذهب إليه أئمتنا الثلاثة: أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد، لأن هذه المسالة ذكره محمد في "الجامع الصغير" ونصه علي ما في البناية (4/251): محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة قال: أكره أن يقبل الرجل من الرجل فمه أو يده أو شيئاً منه، وأكره المعانقة، ولا أري بالمصافحة بأساً"، وهذا يدل بسياقه على أن التقبيل والمعانقة الذين كرهما أبو حنيفة هما اللذان يكونان على وجه التحية عند اللقاء لا مطلقاً، ويدل أيضاً على أن المسألة مما اتفق عليه الأئمة الثلاثة؛ لأن محمداً لم يذكر الخلاف فيها، وقد يكونان علی وجه الشهوة وهما المكاعمة، والمكامعة التي يعبر عنهما بالفارسية ب"بوس وكنار" وهما لاتجوزان عند أئمتنا الثلاثة؛ لورود النهي عنهما بخصوصهما، وبالأدلة الأخرى بعمومها، وقد يكونان لهيجان المحبة والشوق والإستحسان  عند اللقاء وغيره من غير شائبة الشهوة، وهما مباحان باتفاق أئمتنا الثلاثة؛ لثبوتهما عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه؛ ولعدم مانع شرعي عنه، هذا هو التحقيق".

(کتاب الحظر والإباحة، باب كراهة تقبيل الرجل والتزامه أخاه علي وجه التحية، 17 / 418، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں