بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی صدقہ رفاہی کاموں میں لگانا


سوال

میرا جب روزگار بناتو میں نے نیت کی تھی کہ آمدن کا مخصوص حصہ بطور نفلی شکریہ اللہ کی راہ میں دوں گا،ہمارے گاؤں میں پیدل چلنے کا راستہ خراب ہے، کیا میں وہ رقم اس راستے کی تعمیر پر خرچ کرسکتا ہوں،  مزید یہ کہ میرے دادا کا گھر بھی اسی راستے میں آتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ اپنی آمدن کا مخصوص نفلی حصہ مذکورہ راستے کے تعمیر میں لگاسکتے ہیں اگرچہ اس راستے میں آپ کے دادا کا گھر پڑتا ہو۔

قرآن مجید میں ہے:

مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوٰلَهُمْ فِي سَبِيلِ ٱللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنۢبُلَةٖ مِّاْئَةُ حَبَّةٖۗ وَٱللَّهُ يُضَٰعِفُ لِمَن يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ (سورۃ البقرۃ آیۃ 261)

ترجمہ:

جو لوگ اللہ کی راہ میں (یعنی امور خیر میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں اُن کے خرچ کئے ہوئے مالوں کی حالت (عند اللہ ، ایسی ہے جیسے ایک دانہ کی حالت جس سے (فرض کرو) سات بالیں جمیں (اور) ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں (اسی طرح خدا تعالیٰ ان کا ثو اب سات سو حصہ تک بڑھاتا ہے) اور یہ افزونی خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے (بقدر اس کے اخلاص اور مشقت کے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں(ان کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں وہ سب کو یہ افزونی  دے سکتے ہیں مگر ساتھ ہی)جاننے والے (بھی) ہیں (اس لئے اخلاص نیت وغیرہ کو دیکھ کر عطافرماتے ہیں) 

(معارف القرآن،ج:1،ص:628،ط:معارف القرآن)

تفسیر روح البیان میں ہے:

"وسبيل وان عم ‌كل ‌طاعة الا انه خص بالغزو إذا اطلق وعند محمد هو الحجيج المنقطع بهم."

(ج:3،ص؛454،دار الفكر - بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"(وعن أبي عبس رضي الله عنه : بفتح فسكون موحدة. قال المؤلف. هو عبد الرحمن بن جبير الأنصاري الحارثي غلبت عليه كنيته، شهد بدرا ومات بالمدينة سنة أربع وثلاثين ودفن بالبقيع وله سبعون سنة. (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما اغبرت قدما عبد) : وفي رواية المستملي: اغبرتا، ذكره السيوطي، فيكون من قبيل أكلوني البراغيث، والمعنى صارتا ذاتي غبار (في سبيل الله) ; هو في الحقيقة كل ‌سبيل ‌يطلب فيه رضاه."

(کتاب الجہاد،ج:6،ص:2458،رقم الحدیث،3794،ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

فتح الباری میں ہے:

"والمراد في سبيل الله ‌جميع ‌طاعاته اه وهو كما قال إلا أن المتبادر عند الإطلاق من لفظ سبيل الله الجهاد."

(کتاب الجہاد،‌‌قوله إن الله لا يضيع أجر المحسنين،ج:6،ص:29،ط:دار المعرفة-بیروت)

النہایۃ لابن الاثیر میں ہے:

"وسبيل الله عام يقع على كل عمل خالص سلك به طريق التقرب إلى الله تعالى بأداء الفرائض والنوافل وأنواع التطوعات، وإذا أطلق فهو في الغالب واقع على الجهاد حتى صار لكثرة الاستعمال كأنه مقصور عليه»."

(باب السین مع الباء،ج:2،ص:339،ط؛المکتبۃ الاسلامیة)

الدرمع الرد میں ہے:

"ثم رأيت في البزازية لو قال: ثلث مالي ‌في ‌سبيل ‌الله فهو لغزو فإن أعطوا حاجا منقطعا جاز."

(کتاب الوصایا،ج:6،ص:664،ط:دار الفكر - بيروت)

وفیہ أیضا:

"(وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة) وقيل الحاج وقيل طلبة العلم، وفسره في البدائع بجميع القرب."

(باب مصرف الزکوۃوالعشر،ج:2،ص:343،ط:دار الفكر - بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"ولو قال ثلث مالي في سبيل الله فهو للغزو فإن أعطوه حاجا منقطعا جاز وفي النوازل لو صرف إلى سراج المسجد يجوز اهـ"

(باب التحکیم،قوله ولو‌‌ ادعى دارا إرثا لنفسه ولأخ له غائب وبرهن عليه أخذ نصف المدعى فقط،ج:7،ص:48،ط:دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما قوله تعالى: {وفي سبيل الله}[التوبة: 60] عبارة عن ‌جميع ‌القرب فيدخل فيه كل من سعى في طاعة الله وسبيل الخيرات إذا كان محتاجاوقال أبو يوسف المراد منه فقراء الغزاة؛ لأن سبيل الله إذا أطلق في عرف الشرع يراد به ذلك، وقال محمد: المراد منه الحاج المنقطع."

(کتاب الزکوۃ،فصل في الذي یرجع الي المؤدی الیه،ج:2،ص:46،ط:دارالکتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا ‌القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه۔۔۔۔۔۔۔ هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم كذا في الكافي."

( کتاب الزکوۃ،الباب السابع في المصارف،ج:1،ص:189،ط:دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں