میرےکل چھ بچےہیں،جن میں دوبیٹےاورچاربیٹیاں ہیں،ایک بیٹی ان میں لےپالک ہےیعنی میری اپنی بچی نہیں ہے،میری 85سال عمرہے،میراایک ذاتی مکان ہے، جس کی مالیت ایک کروڑبنتی ہے، میں خدمت کامحتاج ہوں،میری اہلیہ کاانتقال ہوچکا ہے،میری اولادمیں کوئی بھی میری خدمت نہیں کرتا،نہ کوئی خرچ دیتاہے،جس کی وجہ سےمیں سخت اذیت میں ہوں،میری صرف ایک بیٹی ایسی ہےجومیراخیال رکھتی ہے،اس وجہ سےمیراارادہ ہےکہ اپناگھرصرف اسی کےنام کرادوں،قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ کیامیں ایساکرسکتاہوں؟
صورتِ مسئولہ میں بیٹی کےنام کرانےسےمراداگراس بیٹی کوزندگی میں جائیدادکامالک بناناہےیعنی اس بیٹی کومکمل قبضہ واختیارکےساتھ اس گھرپرقبضہ دیناہے،تواس کی حیثیت ہبہ(گفٹ)کی ہوگی اورہبہ میں اپنی اولادکےدرمیان برابری کا حکم ہےکسی ایک کودےکردوسرےکومحروم کرناجائزنہیں ہوگا،بلکہ ایک کوجتنا حصہ اس گھرمیں سےدےگا، اسی کے بقدر دوسرےکو بھی دینالازم ہوگا،خواہ بیٹی کو دے یا بیٹےسب کو برابر دینا لازم ہوگا، ورنہ گناہ ہوگا، ہاں اگردوسروں کونقصان پہنچانامقصودنہ ہو اور کسی ایک کو کسی دینی فضیلت،یاخدمت گزاری کی وجہ سے دوسروں سےزیادہ دینا چاہے تو دوسروں کے مقابلے میں کچھ زائد دے سکتے ہیں، الغرض پورا مکان مذکورہ خدمت گزار بیٹی کے نام کرنا جائز نہیں ہے، البتہ مکان کی تقسیم کے وقت اس بیٹی کو دوسروں سے زیادہ حصہ دیا جاسکتا ہے۔
چناں چہ تفسیرطبری میں ہے:
" حدثنا القاسم قال، حدثنا الحسين قال، حدثنا حجاج، عن ابن جريج قال: قلت لعطاء قوله:"فمن خاف من موص جنفا أو إثما"، قال: الرجل يحيف أو يأثم عند موته، فيعطي ورثته بعضهم دون بعض، يقول الله: فلا إثم على المصلح بينهم. فقلت لعطاء: أله أن يعطي وارثه عند الموت، إنما هي وصية، ولا وصية لوارث؟ قال: ذلك فيما يقسم بينهم."
(سورة البقرة،آية:182،ج:3،ص:402،ط:دار التربية والتراث)
احکام القرآن للجصاص میں ہے:
"حدثنا محمد بن بكر قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عبد الوهاب بن نجدة قال: حدثنا ابن عياش عن شرحبيل بن مسلم قال: سمعت أبا أمامة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث" وروى عمرو بن خارجة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لا وصية لوارث إلا أن تجيزها الورثة."
(باب الوصية للوارث،ج:2،ص:124،ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
البحرالرائق میں ہے:
"(قوله فروع) يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط."
(كتاب الهبة، هبة الأب لطفله، ج:7، ص:288، ط:دار الكتب الإسلامي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101591
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن