1۔میں نے اپنا پرانا گھر بیچ کر نیا گھر خریدنا چاہا،اس سلسلے میں لوگوں سے قرضے لیے،اور بڑے بیٹے سے بھی میں نے پیسے مانگے اور کہا کہ سب سے میں نے قرضہ لے لیا ہے تم بھی کچھ پیسے دے دو، اس نے مجھے چار لاکھ روپے دے دیے،پیسے دیتے وقت اس نے زبانی طور پر قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی شرکت وغیرہ کا کوئی معاہدہ ہوا تھا، پھر گھر خریدنے کے بعددو لاکھ روپے میں نے اسے واپس کردیے تھے،دولاکھ روپے ابھی باقی ہیں،لیکن اب بیٹا کہتا ہےکہ گھر بیچ کر مجھے تیس لاکھ روپے دو، کیا بیٹے کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے؟نیز ایسے بیٹے کو عاق کرنا کیسا ہے؟
2۔بیٹا اپنی بہنوں کو گھر میں آنے نہیں دیتا، بہنوں کو گھر آنے پر مارا بھی ہے، اور باپ سے بداخلاقی کرتا ہے، شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں بیٹے سے رقم حاصل کرنےکے حوالہ سے سائل نے جو الفاظ کہے تھے کہ ”سب سے میں نے قرضہ لے لیا ہے، تم بھی کچھ پیسے دے دو“ یہ قرض کے مطالبہ پردلالت کرتے ہیں، لہذا مذکورہ مطالبہ پر بیٹے نے جو چار لاکھ روپے دیے تھے، اس کی حیثیت قرض کی ہوگی، جس میں سے سائل دو لاکھ روپے اداکرچکا ہے، اور دولاکھ روپے واجب الاداء ہیں، مسئولہ صورت میں سائل کے بیٹے کا گھر فروخت کرکےتیس لاکھ روپے ادا کرنے کا مطالبہ کرناشرعاً درست نہیں، نیز سائل پر مذکورہ گھر فروخت کرناشرعاً لازم نہیں ہوگا۔
نیزبیٹے کوجائےداد سے عاق کرنے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہوتی،یعنی اولاد میں سے کسی کو عاق کرنے کے باوجود شرعاً وہ جائیداد کے وراثتی حصہ سےمحروم نہیں ہوتا۔
کفایت المفتی میں ہے:
"بیٹے کو عاق کر کے میراث سے محروم کرنا نا جائز ہے"
(سوال) میں اپنے لڑکے مسمی عید و عمرش کو اپنی فرزندیت سے عاق کرنا چاہتا ہوں مجھے کس طرح سے عاق کرنا چاہئیے ؟ المستفتی نمبر: ٢٥٧٤
(جواب: ٥١١ ) جو لڑکا والدین کا نافرمان ہوا انہیں ایذا پہنچائے وہ تو خود ہی عاق ہے، یعنی نافرمان۔ رہا یہ کہ عاق کر دینا یعنی اس کو میراث سے محروم کر دینا تو یہ کوئی شرعی بات نہیں ہے اور نہ شرعا اس کی اجازت ہے اگرچہ عوام میں یہ بات مشہور ہے مگر بے اصل ہے۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی۔"
( کتاب الفرائض، ج:8، ص:365، ط: دار الاشاعت )
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»."
(باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی، ج:2، ص:889، رقم:2946، ط: المکتب الإسلامي بیروت)
ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پرظلم و زیادتی نہ کرو، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لیناحلال نہیں ہے۔"
المحيط البرہانی میں ہے:
"وأما إذا سكت إنما جعل قرضاً، وإن احتمل الهبة؛ لأنه كما يحتمل الهبة يحتمل القرض والقرض أقل التبرعين؛ لأنه لتمليك المنفعة دون العين على ما عرف، والهبة لتمليك العين والمنفعة جميعاً، فكان الأقل منتفياً، فكان الأقل أولى بالإثبات."
(کتاب الإجارات، ج:7، ص:627، ط: دار الكتب العلمية)
البحر الرائق میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود، ج:5، ص:44، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"فقال في الخانية: إن الاستحقاق المشروط كإرث لا يسقط بالإسقاط. اهـ ."
(كتاب الوقف، مطلب في الاستدانة على الوقف، ج:4، ص:440، ط: سعید)
تکملة رد المحتار لمحمد علاء الدین میں ہے:
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ... الخ."
(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی، ج:8، ص:116، ط: دار الفكر بيروت - لبنان)
2۔والدین کی نافرمانی کرنا اور اُن کو تکلیف پہنچانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے، ایسی اولاد کے بارے میں شریعت میں بڑی سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں، والدین کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیا گیا ہے، اور والدین کو ستانے والی اولاد کے بارے میں ہے کہ اُسے دنیا ہی میں نقد سزا مل جاتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
"وعن أنس: سُئِلَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم عن الكبائر فقال: الإشراك باللَّه، وعقوق الوالدين،وقتل النفس، وشهادة الزور".
(كتاب الشهادات، ج:2، ص:939، رقم:2510، ط:دار ابن كثير،دار اليمامة دمشق)
ترجمہ :" حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ" اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی آدمی کا قتل کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا ۔"
ایک اور حدیث میں ہے:
"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات»."
(مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، ج:3، ص:1383، رقم:4945، ط:المكتب الإسلامي بیروت)
ترجمہ:"حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیگر سب گناہوں میں سے اللہ جو چاہیں معاف فرمادیتے ہیں سوائے والدین کے ساتھ (بدسلوکی و) نافرمانی کے گناہ کے، اس کی سزا اللہ تعالی نافرمان اولاد کو مرنے سے پہلے زندگی میں ہی دے دیتے ہیں۔"
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیٹا سائل سے بداخلاقی کرتاہے تو یہ شرعاً واخلاقاً انتہائی قبیح حرکت ہے، ایسا کرنا ناجائز ہے، اور اس طرح کرنے سے وہ کبیرہ گناہ کامرتکب ہورہا ہے، اس لیے جب تک وہ اپنی اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ نہیں کرے گا اور آپ سے معافی مانگ کر آپ کو راضی نہیں کرلے گا، تب تک اس کا یہ گناہ معاف نہیں ہوگا، اور اُسے دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں سزا اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا،بہت ممکن ہے اس سے اس کی اولاد آئندہ ایسے ہی کرے۔
نیز سائل کے بیٹے کااپنی بہنوں پر ہاتھ اٹھانا اور انہیں گھر میں آنے سے روکنے کا شرعا حق نہیں ہے، یہ انتہائی برا فعل ہے، جس پر بہنوں سے معافی مانگنا ضروری ہوگا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن