بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہیں تو فرعون کے لیے آسیہ کیوں؟


سوال

اگر نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہیں تو فرعون کے لیے حضرت آسیہ کیوں ؟

جواب

   صورتِ مسئولہ میں   سائل نےجو سوال اٹھا یا ہے،وہ  قرآن کریم میں  سورہ نور کی  آیت نمبر 26 کے صحیح مفہوم کو نہ  جاننے  کی بنا  پر ہے،اس آیت   کا مفہوم یہ ہے کہ گندی عورتیں ، گندے مردوں کے لائق ہوتی  ہیں اور  گندے مرد، گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور  پاک صاف عورتیں پاک صاف مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاک صاف مرد، پاک صاف عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ رب العزت نے انسانی طبائع کے میلان کو بیان فرمایا ہے کہ جس کی طبیعت بری ہو، اس کی رغبت بھی بری طبیعت والوں کی طرف ہوتی ہے  اور طبیعت کے  اچھا  یا برا ہونے میں اسلام یا کفر کا کوئی تعلق نہیں ،نیز یہ بھی واضح رہے کہ حضرت آسیہ  رضی اللہ عنہا  نکاح کے بعد  ایمان   لائی تھیں،جس وقت فرعون کے ساحروں پر حضرت موسی علیہ السلام  غالب آئےتو آسیہ رضی اللہ عنہا  کسی سے پوچھنے لگی کہ کون غالب آیا؟تو جواب ملا کہ موسی وہارون علیہما السلام، اسی وقت حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کہنے لگی ،" آمنت برب موسى و هرون"،  پس  حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح فرعون  کے ساتھ جس وقت ہواتھا، اس وقت آسیہ  رضی اللہ عنہا بھی ایمان پر نہ تھیں، اور   جب آسیہ رضی اللہ عنہا ایمان لائیں ،  تب بھی ان پر مفارقت واجب نہ تھی؛ اس لیے کہ اس وقت مسلمان  کا نکاح کافر سے جائز تھا،   اسلام  میں بھی یہ بعد میں  منسوخ کیا  گیا، صلح حدیبیہ سن 6 ہجری کے موقع پر آیتِ  کریمہ جس میں ہے: "ولا تمسکو ا بعصم الکوافر"  (الآية)نازل ہوئی، اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں ،مراد آیت کی یہ ہے:

" کہ اب تک جو مسلمان اور مشرکوں کے درمیان مناکحت کی اجازت تھی وہ ختم کر دی گئی،  اب کسی مسلمان کا نکاح مشرک عورت سے جائز نہیں اور جو نکاح پہلے ہو چکے ہیں وہ بھی ختم ہو چکے ،اب کسی مشرک عورت کو نکاح میں رکھنا حلال نہیں۔" 

(سورۃ الممتحنۃ،415/8،ط:مکتبہ معارف القران کراچی)

تفسیرثعلبی میں ہے: 

 "قال المفسرون: لمّا غلب موسى السحرة آمنت امرأة فرعون فلمّا تبيّن إسلامها وثبتت عليه أوتد يديها ورجليها بأربعة أوتاد وألقاها في الشمس وأمر بصخرة عظيمة لتلقى عليها."

(سورۃ التحریم، 351/9، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

تفسیر کبیر میں ہے:

"وضرب مثلا آخر في امرأة فرعون آسية بنت مزاحم، وقيل: هي عمة موسى عليه السلام آمنت حين سمعت قصة إلقاء موسى عصاه، وتلقف العصا، فعذبها فرعون عذابا شديدا بسبب الإيمان."

(سورۃ التحریم، 574/30، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"وكانت ‌امرأة ‌فرعون تسأل من غلب؟ فقيل لها: غلب موسى وهرون، فقالت: ‌آمنت برب موسى وهرون. فأرسل إليها ‌فرعون فقال: انظروا أعظم صخرة فإن مضت  على قولها فألقوها عليها، فلما أتوها رفعت بصرها إلى السماء فأبصرت منزلها في الجنة، فمضت على قولها فانتزع روحها، وألقيت الصخرة على جسدها وليس في جسدها روح."

(سورۃ طه،225/11، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)

 تفسیر معارف القرآن میں ہے:

"اس آخری آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے، گندی اور بدکار عورتیں، بدکار مردوں کی طرف اور گندے بدکار مرد، گندی بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں، اسی طرح پاک صاف عورتوں کی نیت پاک صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے اور پاک صاف مردوں کی رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے اور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرةً اس کو وہی مل جاتا ہے، اس عام عادت کلیہ اور ضابطہ سے واضح ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام جو دنیا میں پاکی و صفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالی ان کو ازواج بھی ان کے مناسب عطا فرماتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء کے سردار ہیں ان کو ازواج مطہرات بھی اللہ تعالی نے پاکی اور صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ ہی کی مناسب شان عطا فرمائی ہیں اور صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سب میں ممتاز ہیں، ان کے بارے میں شک و شبہ وہی کرسکتا ہے جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ ہو، اور حضرت نوح و حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کے بارے میں جو قرآن کریم میں ان کا کافر ہونا مذکور ہے تو ان کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ کافر ہونے کے باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا"ما بغت امرأة نبي قط" یعنی کسی نبی کی عورت(بیوی) نے کبھی زنا نہیں کیا (ذکر فی الدر المنشور) اس سے معلوم ہوا کہ کسی نبی کی بیوی کافر ہوجائے اس کا تو امکان ہے، مگر بدکار فاحشہ ہوجائے یہ ممکن نہیں، کیوں کہ بدکار طبعی طور پر موجب نفرت عوام ہے، کفر طبعی  طورپرنفرت کا موجب نہیں۔"

(سورۃ نور،384/6، ط:  مکتبہ معارف القران ،کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں