1۔گناہ کرنے کے ارادے پر انشاء اللہ بولنا، گناہ اور حرام کام کے سننے یا دیکھنے پر ماشاءاللہ یا سبحان اللہ بولنا، گناہ اور حرام کام کے کرنے یا تکمیل پر الحمد للہ بولنا اور اللہ کا شکر ادا کرنا، کیا ان تمام باتوں سے انسان کافر ہوجاتا ہے اور نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
2۔ سورہ یاسین پڑھنے سے حاجتیں پوری ہوتی ہیں، اگر کوئی کسی حرام حاجت کے لیے پڑھے تو کیا انسان کافر ہوجاتا ہے؟
3۔حرام کا م کی تکمیل یا حرام کمائی پر اگر کوئی سجدہ شکر یا صلوۃ شکر پڑھے تو کیا انسان کافر ہوجاتا ہے اور نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
4۔سجدہ شکر یا صلوت شکر پڑھنا کسی ایسی چیز کے حصول پر جو کے تخیلاتی طور پر فرض کر لیا گیا ہو اور حقیقت میں اس کا حصول نہ ہوا ہو، مثلاً اگر کوئی تجارت کرتا ہے اور اس کو نقصان ہورہا ہے ، لیکن تخیّلاتی طور پر یہ فرض کر لیتا ہے کے بہت نفع ہورہا ہے اور لاکھوں روپے روزانہ کے بن رہے ہیں، حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور اس طرح فرضی گمان کو حقیقت تصور کر نا اور زبان سے اس طرح بولنا گویا حقیقت اور سچ میں ایسا ہی ہے، اس پر روزانہ صلوت شکر پرھنا تاکہ شکر گزاری کے کے زمرے میں رہے اور تجارت کے نقصان پر کسی قسم کی ناشکری اور منفی سوچ پیدا نہ ہو، تو اسطرح کرنا کیسا ہے؟
5۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم سنچری اور جیتنے پر سجدہ شکر ادا کرتی ہے بغیر وضو کے، تو بعض لوگوں نے ان کے ایمان اور نکاح پر سوال اٹھا دیا ہے دو وجہ سے، (۱) بغیر وضو کے سجدہ شکر (۲) کرکٹ جو کے حرام یا مختلف فیہ ہے اس پر سجدہ شکر۔
واضح رہے کہ کسی بھی جائز اور اچھے کام کا عزم کرتے ہوئے "ان شاء اللہ" کہنا چاہیے کیوں کہ ان شاء اللہ کا مقصد دراصل اس کام کو اللہ تعالیٰ کی مشئیت پر موقوف کرنا اللہ تعالیٰ سے حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس کام کے سر انجام دینے کا عزم کرنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں برکت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کام کو کرنا آسان ہوجاتا ہے، جب کہ ان شاء اللہ نہ کہنے میں اعجاب (خود پسندی) اور اللہ تعالیٰ سے بے نیازی کا پہلو ہوتا ہے، اس لیے اس میں برکت ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح کسی نعمت کے حصول یا مصیبت کے ٹل جانے کے وقت اللہ تعالی کا شکر بجالانے کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ شکرانے کے کم از کم دو نفل پڑھے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص اس موقع پر سجدۂ شکر ادا کرنا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، لیکن کسی ناجائز اور برے کام کا ارادہ کرتے ہوئے "ان شاء اللہ " کہنا درست نہیں ہے کیوں کہ برائی کے ارادے کو اللہ تعالی کی مشیت اور رضا کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے، سجدہ شکر کسی صحیح اور شریعت کی نگاہ میں جائز نعمت اور خوشی کے ملنے پر یا کسی مصیبت کے ٹل جانے کیا جاتا ہے اور یہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے،البتہ مکمل شکر بجالانے کی صورت یہ ہے کہ شکرانے کے نوافل پڑھے جائیں اور اللہ پاک کی حمد وثناء بیان کی جائے، سجدہ شکر ادا کرنا نماز کے علاوہ بھی درست ہے اورچونکہ یہ سجدہ نفلی عبادت ہےاس لئے اس کے لیئے بھی قبلہ رخ ہونا، جگہ اور بدن کا پاک ہونا، اوقات ممنوعہ ومکروہہ کا نہ ہونا شرط ہے،البتہ اگر کوئی شخص وضو کے بغیر سجدہ شکرکرنے کو جائز اور درست سمجھتا ہے، یا دین کے استخفاف، حقارت اور اہانت کی غرض سے وضو کے بغیر سجدہ کرتا ہے تو ایسا شخص حکمِ شرعی کی اہانت، استخفاف اور فرض کے انکار کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوگا،لیکن اگر کوئی شخص وضو کیے بغیر سجدہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتا، اور نہ ہی شریعت کی اہانت کی غرض سے ایسا کرتا ہے، بلکہ لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو کیے بغیر سجدہ کرتا ہے تو اس سے یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، البتہ سستی اور کاہلی وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنا سخت گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگا۔
1۔ لہذا صورت مسئولہ میں گناہ کے کرنے کے ارادے پر انشاء اللہ کہنا،گناہ کے کام کو سننے یا دیکھنے پر ماشاء اللہ کہنا، یا حرام کام کی تکمیل پر الحمد للہ کہنا ناجائز اور حرام ہے ،البتہ اس سے آدمی کافر نہیں ہوتا اور نہ ہی نکاح ٹوٹتا ہے ،لیکن اگر حرام کام کو حلال سمجھ کر ماشاء اللہ کہتا ہے ، تو اس صورت میں چونکہ حرام کو حلال قرار دیناکفر ہے ، اس لئے ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے ، اس پر تجدید ایمان و تجدید نکاح ضروری ہے ۔
2۔سورۃ یاسین کی تلاوت باعث برکت ضرور ہے ،البتہ ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے اس کی تلاوت کرنا ثواب کے بجائےگناہ بلکہ دوھرا گناہ ہے ، اس سے بچنا ضروری ہے، البتہ اس سے آدمی کافرنہیں ہوگا۔
3۔اسی طرح حرام کام کی تکمیل پر سجدہ شکر ادا کرنا لا علمی اور جہالت پر مبنی ہے ، کیونکہ سجدہ شکر شریعت کی نگاہ میں کسی جائز نعمت اور خوشی کے ملنے پر یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کیا جاتا ہے اور یہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے،جو چیز اللہ کو نا پسند ہےاور اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ، وہ کام کر کے سجدہ شکر ادا کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اللہ اس کے اس غلط کام پر خوش ہیں اور اللہ کی خصوصی مدد سے یہ گناہ کیا ، جو کہ سخت گناہ ہے، البتہ اس سے آدمی کافر نہیں ہوتا اور نہ نکاح ٹوٹتا ہے۔
4۔اسی طرح تخیلاتی طور پر کسی چیز کے حصول کو مان کر اس پر سجدہ شکر ادا کرنا تاکہ ناشکری کے زمرے میں نہ آئے ،اور نقصان کی صورت میں ناشکری نہ ہو یہ بھی درست ہے اور حد درجہ شکر گزاری ہے۔
5۔ اسی طرح سجدہ شکر ایک نفلی عبادت ہے، اس لئے اس کے لیئے بھی قبلہ رخ ہونا، جگہ اور بدن کا پاک ہونا، اوقات ممنوعہ ومکروہہ کا نہ ہونا شرط ہے،البتہ اگر کوئی شخص وضو کے بغیر سجدہ شکرکرنے کو جائز اور درست سمجھتا ہے، یا دین کے استخفاف، حقارت اور اہانت کی غرض سے وضو کے بغیر سجدہ کرتا ہے تو ایسا شخص حکمِ شرعی کی اہانت، استخفاف اور فرض کے انکار کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوگا،لیکن اگر کوئی شخص وضو کیے بغیر سجدہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتا، اور نہ ہی شریعت کی اہانت کی غرض سے ایسا کرتا ہے، بلکہ لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو کیے بغیر سجدہ کرتا ہے تو اس سے یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، البتہ سستی اور کاہلی وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنا سخت گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب، كما في الخانية."
"(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال: المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لايؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ، ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لايؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافراً، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصاً: أي والاستخفاف في حكم الجحود."
"(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة: وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية: لايكون كفراً، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفراً عند الكل. "
"أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لايكون كفرا عند الكل، تأمل۔"
(کتاب الطهارة، ج:1، ص:81، ط:سعید)
تفسیر روح البیان میں ہے:
"و أما سجدة الشكر و هي أن يكبر و يخرّ ساجدًا مستقبل القبلة فيحمده تعالى و يشكره و يسبح ثم يكبر فيرفع رأسه فقد قال الشافعي: يستحب سجود الشكر عند تجدد النعم كحدوث ولد أو نصر على الأعداء و نحوه و عند دفع نقمة كنجاة من عدوّ أو غرق و نحو ذلك."
(ج:4، ص:357، ط:دارالفکر)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
" أن من تجددت عنده نعمة ظاهرة أو رزقه الله تعالى ولدا أو مالا أو وجد ضالة أو اندفعت عنه نقمة أو شفي مريض له أو قدم له غائب يستحب له أن يسجد شكرا لله تعالى مستقبل القبلة يحمد الله فيها ويسبحه ثم يكبر أخرى فيرفع رأسه كما في سجدة التلاوة، كذا في السراج الوهاج."
(کتاب الصلوۃ ، الباب الثالث عشر فی سجود التلاوۃ ج:1، ص:136، ط:دارالفکر)
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:
"والإتيان بالبسملة عمل يصدر من المكلف فلا بد أن يتصف بحكم، فتارة يكون فرضا كما عند الذبح وتارة يكون واجبا على القول بأنها آية من الفاتحة، وإن كان خلاف المذهب؛ لأن الأخبار الواردة فيها مع المواظبة تفيد الوجوب وتارة يكون سنة كما في الوضوء، وأول كل أمر ذي بال ومنه الأكل والجماع ونحوهما، وتارة يكون مباحا كما هي بين الفاتحة والسورة على الراجح، وفي ابتداء المشي والقعود مثلا؛ لأنها إنما تطلب لما فيه شرف صونا عن اقتران اسمه تعالى بالمحقرات وتيسيرا على العبادة، فإن أتي بها في محقرات الأمور كلبس النعال على وجه التعظيم والتبرك فهو حسن، وتارة يكون الإتيان بها حراما كما عند الزنا ووطء الحائض وشرب الخمر وأكل مغصوب، أو مسروق قبل الإستحلال، أو أداء الضمان، والصحيح أنه إن استحل ذلك عند فعل المعصية كفر، وإلا لا، وتلزمه التوبة إلا إذا كان على وجه الاستخفاف فيكفر أيضا."
(خطبة الكتاب، ص:5، ط:دار الكتب العلمية)
مجمع الانھر میں ہے:
"(والسجود) وهو وضع الجبهة أو الأنف على الأرض بطريق الخضوع لقوله تعالى{اركعوا واسجدوا} ۔"
(کتاب الصلوۃ، ج:1، ص:87، ط:المطبعة العامرۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101451
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن